قصہ گوئی
آج سے بیس پچیس سال پہلے تک لوک کہانیاں بڑے ذوق شوق سے سنی اور پڑھی جاتیں تھیں۔ ایسے ہی ہمیں اپنے ارد گرد ہیر پڑھنے والے بھی مل جاتے لیکن آج کل یہ فن معدوم ہوتا جارہا ہے۔ جہاں نئی نسل پنجاب کی ان روایتی کہانیوں سے لا علم ہے وہیں ہیر گو کو ڈھونڈنا ایک اہم معرکہ ہے۔ سنا ہے کہ چند دہائیاں پہلے لاہور کے حضوری باغ میں چند ہیر گو بیٹھا کرتے تھے جو اپنی خوبصورت آواز میں ”ہیر رانجھا“ کی کہانی منظوم صورت میں پڑھتے تو ان کے گرد سننے والوں کا ہجوم لگ جاتا۔ لوگ دور دراز سے یہاں ہیر سننے کے لئے آتے اور محظوظ ہوتے۔ پاکستان بننے سے پہلے ہر طبقہ فکر کے لوگ”ہیر رانجھا“ کی داستان سننے کے لئے یہاں آیا کرتے تھے لیکن پھر یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور یہاں آنے والے ہیر گو مختلف میلوں میں جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے۔
قصہ گوئی عرصہ قدیم سے ماضی کی کہانیوں اور واقعات کو زندہ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ رہی ہے۔ برصغیر میں قصہ گوئی کا فن عرب، ایران اور افغانستان سے ہوتا ہوا پہنچا۔ ابتداء میں اس فن کا مقصد ثقافتی روایات اور قصہ کہانیوں کو اگلی نسلوں تک پہنچانا تھا جبکہ بعد ازاں اس فن میں محبت، رواداری، دشمنی، بہادری اور دیگر جذبات کی بھی عکاسی ہونے لگی۔
ایک روایت جسے زندہ رکھنے کی اشد ضرورت ہے چند دہائیاں قبل لاہور کے حضوری باغ میں چند ہیر گو بیٹھا کرتے تھے جو اپنی خوبصورت آواز میں ”ہیر رانجھا“ کی کہانی منظوم صورت میں پڑھتے تو ان کے گرد سننے والوں کا ہجوم لگ جاتا۔
قصہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی دلچسپ کہانی یا داستان کے ہیں۔ پنجابی زبان میں قصہ گوئی ایک اہم روایت ہے جس نے عرصہ دراز تک پنجابی لوک داستانوں کو زندہ رکھا۔ پنجاب میں لوک داستانیں، قصے، روایات پنجاب کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں۔یہ عوام کی تفریح کا ذریعہ ہی نہیں ان کی ذہنی، نفسیاتی، معاشرتی و اخلاقی تربیت کا وسیلہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔
پنجاب کی اہم لوک داستانوں میں ”ہیر رانجھا“،”سسی پنوں“، ”سوہنی مہنیوال“ اور ”مرزا صاحباں“ قابل ذکر ہیں۔”ہیر رانجھا“ کی عشقیہ داستان کو عظیم شاعروارث شاہ نے منظوم شکل دے کے لازوال کر دیا۔
رانجھا آکھدا اے جہان سفنا، مر جاؤنا ہے متوالئے نی
تْساں جہیاں پیاریاں اے لازم،آئے گئے مسافر پالئے نی
ایڈا حسن دا ناں گمان کیجئے، ایہہ لے پلنگ سنے نہا لیے نی
اساں رب دا آسرا رکھیا اے،اْٹھ جاؤنا ہے نیناں والیے نی