آج سے بیس پچیس سال پہلے تک لوک کہانیاں بڑے ذوق شوق سے سنی اور پڑھی جاتیں تھیں۔ ایسے ہی ہمیں اپنے ارد گرد ہیر پڑھنے والے بھی مل جاتے لیکن آج کل یہ فن معدوم ہوتا جارہا ہے۔ جہاں نئی نسل پنجاب کی ان روایتی کہانیوں سے لا علم ہے وہیں ہیر گو کو ڈھونڈنا ایک اہم معرکہ ہے۔ سنا ہے کہ چند دہائیاں پہلے لاہور کے حضوری باغ میں چند ہیر گو بیٹھا کرتے تھے جو اپنی خوبصورت آواز میں ”ہیر رانجھا“ کی کہانی منظوم صورت میں پڑھتے تو ان کے گرد سننے والوں کا ہجوم لگ جاتا۔ لوگ دور دراز سے یہاں ہیر سننے کے لئے آتے اور محظوظ ہوتے۔ پاکستان بننے سے پہلے ہر طبقہ فکر کے لوگ”ہیر رانجھا“ کی داستان سننے کے لئے یہاں آیا کرتے تھے لیکن پھر یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور یہاں آنے والے ہیر گو مختلف میلوں میں جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے۔