قدیم سراغ رساں کھوجی

 کسی بھی واردات کا سراغ لگانے اور ملزمان تک پہنچنے کے لیے ثبوتوں اور شواہد اکٹھا کرنے کے ایک طویل مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے جس کے لیے جدید طریقے جیسے فنگر پرنٹس اور فرانزک ٹیسٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔تاہم جدید ٹیکنالوجی کے آنے سے قبل ماضی میں یہ کام کھوجیوں کے سپرد تھا جو اپنے فن کی مدد سے کُھرا نکال کر وردات کرنے والے تک پہنچ جاتے تھے۔
جیسے ایک انسان کی انگلیوں اور انگوٹھے کے نشانات کسی دوسرے سے نہیں ملتے، اسی طرح دنیا کے اربوں انسانوں کی چال یا زمین پر قدم رکھنے کا انداز بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق چال کی مدد سے کسی کو شناخت کرنا دوسرے تمام طریقوں کی نسبت آسان اور بہتر ہے۔ چال سے کسی شخص کی شناخت کا فن بہت پرانا ہے۔
قدیم ہندوستان میں مجروموں کی تلاش کے لئے عموماً کھوجی کی مدد حاصل کی جاتی تھی۔ وہ زمین پر قدموں کے نشان دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ مجرم چلتا کس طرح ہے۔اس کا وزن اور عمر اندازاً کتنی ہے، اس کی شخصیت کے کون سے منفرد پہلو ہیں؟ کھوجی کے اس قیاس کی مدد سے پولیس کو مجرم کا حلیہ تیار کرنے اور اسے پکڑنے میں نہایت مدد ملتی تھی۔ کھوجیوں کے اندازے اکثر اوقات حیرت انگیز حد تک درست ہوتے تھے۔ کھوجی اپنے ہنر میں اتنے ماہر تھے کہ وہ جانوروں کے کھروں کے نشان دیکھ کر ان کے بارے میں غیر معمولی حد تک درست اندازہ لگا لیتے تھے۔ مثلاً یہ کہ گھوڑے یا دوسرے کسی دوسرے جانور کی جسامت کیسی ہے، وزن کتنا ہے، اس کے چلنے کا قدرتی انداز کیا ہے اور اس پر سوار شخص اسے کس انداز میں چلانے کی کوشش کی تھی؟ برطانوی حکمرانوں نے بھی ہندوستان میں اپنے دور اقتدار میں کھوجیوں کے فن کی حوصلہ افزائی جاری رکھی اور دیہی پولیس سٹیشنوں کے ساتھ کئی کئی کھوجی منسلک کئے جاتے تھے۔
پاکستان قائم ہونے کے بعد، ابتدائی برسوں میں یہ سلسلہ جاری رہا مگر بعد ازاں پختہ اور نیم پختہ سڑکوں کی تعمیر، جرائم کے لئے گاڑیوں اور دیگر جدید ذرائع کے استعمال کے بعد کھوجیوں کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی اور وہ ماضی کا قصہ بن گئے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے باوجود عصر حاضر میں بھی کھوجی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
 

Daily Program

Livesteam thumbnail