روشن دان
روشن دان کو ہوادان بھی کہا جاتا ہے لیکن اس کو زیادہ پذیرائی روشن دان کے نام سے ہی ملی ہے۔ ہمارے روایتی طرزِ تعمیر میں دیواروں اور کھڑکیوں کے اوپر دیوار میں یہ مستطیل اور چوکھٹے شکل کے روشن دان علیحدہ سے ایستادہ ہوتے ہیں۔ جن میں لگے لکڑی کے پَٹ اِن کو بند یا کھولنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ ہماری نظر عام طور پر روشن دان پر نہیں پڑتی لیکن یہ نہ صرف ہماری ہر حرکت پہ نظر رکھے ہوئے ہے بلکہ گھر سے باہربھی بیک وقت جھانکتا رہتا ہے کہ کون آ رہا ھے اور کون جا رہا ہے۔ روشن دان کو گھر کے مکینوں سے زیادہ چڑیاں جانتی ہیں اور عموماً وہاں گھونسلا بنالیتی ہیں یا پھر وہ چڑیاں جو سردیوں میں چھت والے پنکھے کے اوپر لگے کپ میں گھونسلا بنالیتی ہیں وہ دن بھر تنکے چونچ میں لیے پُھر کرکے اڑتی پھرتی ہیں اور روشن دان کو ہی محفوظ ترین راستہ تصور کرتی ہیں جو انسانوں کی دسترس سے بالا تر ہے۔
روشن دان کی طرف اگر دھیان جاتا بھی ہے تو وہ سردیوں کی راتوں میں کیونکہ کمرہ مکینوں کو سردیوں میں انہی روشن دانوں کے نیم وا پَٹ سے ہی صبحِ صادق کا دیدار ہوتا ہے اور چڑیوں کی صدا سنائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ آنے والے دن کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ مطلع صاف ہے یا اَبرآ لود۔ویسے ایک لمحے کو تصور کریں کہ رضائی میں لیٹے لیٹے روشن دان سے صبح کی روشنی، سورج کی کرن کا نظارہ اور پرندوں کی چہچہاہٹ کتنا خوشگوار احساس پیدا کرتی ہیں گویا زندگی کھل رہی ہو اور ایک نیا دن نئے احساسات کے ساتھ ہمارے آ سمان سے روشن دان کے راستے اُتر رہا ہو۔ دیہاتوں اور قصبوں میں روشن دان گرمیوں میں تو مکمل طور پر کھلے ہوتے ہیں اور ان کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا کیونکہ سبھی لوگ باہر صحن میں سوتے ہیں۔
سردیوں کے موسم کا افتتاح انہیں بند کر کے ہی کیا جاتا ہے لیکن ایک اَدھ پَٹ آدھا یا پورا کُھلا رکھا جاتا ہے کہ رات سے گفتگو کی جاسکے۔ کھڑکی اور دروازے کی موجودگی میں روشندان کی ایجاد بظا ہر ایک اضافی اختراع ہی لگتی ہے اور آج کل تو زیادہ ترگرم ہوا کو باہر دھکیلنے والے ایگزاسٹ پنکھے یا بڑی بڑی کھڑکیوں کے رحجانات سے شہروں میں تو روشن دانوں کا رواج ناپید ہوتا جارہا ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو روشن دان کھڑکی اور دروازے کے اوپر ہی منسلک ہوتا ہے جو اسکا حصہ ہی محسوس ہوتا ہے اسی لیے اب دیوار کے اوپر الگ سے روشن دان کا تردد کم ہی لوگ کرتے ییں۔
ویسے سچ پوچھیں تو اَدھ کُھلے روشن دان سے رات کی جَھلک اور صحن یا گلی میں جلنے والے بَلب کی روشنی اور روشن دان سے نظر آ نے والا کوئی ایک چمکتا ہوا تارہ یا چاندنی، اور کسی کُونج یا پرندے کی لمبی کُوک اور خاموشی کا حُسن کتنا خوبصورت احساس پیدا کرتے ہیں۔بہار کے جھونکے بھی تو روشندان کے راستے ہی کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور رات کی رانی اور چنبیلی کی خوشبو بھی تو روشن دان پھلانگ کے کمرے کو مسحور کرتی ہے اور ان کے علاوہ کچھ پُرانی یادیں، بزرگوں کے قصے اور خواب سبھی روشندان کی وساطت سے ہم تک پہنچتے ہیں اور بسا اوقات نیند آنکھوں سے نکل کرروشندان میں جا بیٹھتی ہے کہ باہر جھانک کر دیکھ سکے کہ ابھی اور کتنی رات باقی ہے۔