جلیبی
جلیبی (Jalebi) جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا، شمالی افریقا اور مشرقی افریقا کے ممالک میں ایک مقبول میٹھا ہے۔ جلیبی، جسے جیلپی، زولبیہ، مشباک اور زیلبیہ بھی کہا جاتا ہے، ایک ہندوستانی میٹھا ناشتہ ہے جو جنوبی اور مغربی ایشیا میں مقبول ہے۔ اسے میدہ کو خوب تل کر گول شکل یا دیگر شکلوں میں بنایا جاتا ہے، جو شیرے یا شہد میں بھگویا ہوتا ہے۔ شمالی ہندوستان اور جنوبی پاکستان میں جلیبی کو دودھ، دہی یا ربڑی کے ساتھ اور کبھی کبھی دوسرے ذائقے دار چاشنیوں جیسے کیوڑہ (خوشبودار پانی) کے ساتھ بھی کھایا جاتا ہے۔ یہ چھینا جلیبی اور امرتی جیسے ملتے جلتے میٹھوں سے مختلف میٹھا ہے۔
زلابیہ یا لقمت القدی ایک خمیری آٹے پر مشتمل ہوتی ہے جسے شہد اور گلاب کے پانی میں ڈبو کر تل کر بنایا جاتا ہے۔ ایران میں، جہاں اسے زولبیہ کہا جاتا ہے، رمضان میں روایتی طور پر غریبوں کو یہ مٹھائی دی جاتی تھی۔ دسویں صدی کی ایک کتاب میں زلوبیہ کی کئی ترکیبیں پیش کرتی ہے۔ اس میٹھے کی 13 ویں صدی کی متعدد ترکیبیں ہیں، جن میں سب سے زیادہ قابل قبول ترکیب محمد بن حسن البغدادی کی ایک پکوان ترکیب کتاب میں موجود ہے۔ اس میٹھے کا تذکرہ دسویں صدی کی عربی کتاب میں ابن سیار الوراق نے کیا تھا، جس کا بعد میں نول نصر اللہ نے ترجمہ کیا تھا۔
جوبسن کے مطابق، ہندوستانی لفظ جلیبی عربی زبان کے لفظ زولبیہ یا فارسی زولابیہ سے ماخوذ ہے، لقمت القدی اس کا دوسرا نام ہے۔ یہ پکوان نسخہ فارسی بولنے والے ترک حملہ آور قرون وسطی سے ہندوستان لائے تھے۔ پندرھویں صدی میں ہندوستان میں جلیبی کو کنڈالیکا یا جلاوالیکا کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
قرون وسطیٰ میں ترک اور ایرانی تاجروں کے ذریعے ’زلابیہ‘ ہندوستان پہنچی جہاں اسے جلیبی کے نام سے جانا جانے لگا اور پندرہویں صدی عیسوی تک یہ ہندوستانی تہواروں کی مشہور سوغات بن گئی۔لچھے دار چاشنی اور مٹھاس سے بھرپور جلیبی برصغیر کی خاص سوغات ہے جو عوام اور خواص میں یکساں مقبول ہے اور تہواروں اور خوشی کے موقعوں پر خاص طور پر پسند کی جاتی ہے۔جلیبی اپنے ذائقے اعتبار سے ہی نہیں اپنی تاریخ کے حوالے سے بھی منفرد ہے اور اس کا تذکرہ تقریباً 1000 سال قدیم عباسی دور کے اشعار میں بھی موجود ہے۔
زلابیہ عرب دنیا میں آج بھی معروف ہے اور اس کا ذائقہ اور تیار کرنے کا طریقہ جلیبی سے مختلف نہیں ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے کچھ علاقوں میں چونکہ ’ز‘ کو ’ج‘ کے تلفظ میں ادا کیا جاتا ہے اس لیے زلابیہ یہاں آکر جلیبی بن گئی ہے۔جلیبی یا زلابیہ کے متعلق روایت مشہور ہے کہ اسے متعارف کروانے والے زریاب تھے۔ زریاب اندلس کے دارالحکومت قرطبہ کے وہ مشہور و معروف کردار ہیں جنہوں نے اندلس میں موسیقی اور فن کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کیا، سردی اور گرمی کے لیے علیحدہ لباس کا تصور متعارف کیا اور کھانے پینے کا سلیقہ اور آداب سکھائے۔وہ پہلے بغداد میں تھے جہاں انہوں نے مختلف فنون میں مہارت حاصل کی اور بعد ازاں قرطبہ منتقل ہوگئے جہاں سرکاری سرپرستی میں انہوں نے نئی عادات و اطوار متعارف کروائیں، جو بعدازاں اندلس کی ثقافت و تہذیب کا خاصہ بن گئے۔
اندلس کی ثقافتی تاریخ پر تحقیق کرنے والے فوزی سعد اللہ کہتے ہیں کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زلابیہ پہلی دفعہ اندلس میں ہی تیار کی گئی تھی اور اس کا نام اس کے موجد کے نام پر ’زریابیہ‘ رکھا گیا جو بعد میں تبدیل ہو کر زلابیہ ہو گیا۔
پاکستان میں جلیبی کے حوالے سے کئی دلچسپ باتیں بھی اکثر سنی اور کہی جاتی ہیں مثلاً کسی پر طنز بھی کرنا ہو تو کہا جاتا ہے‘ ہاں!ہاں! تم تو بہت سیدھے ہو جلیبی کی طرح! اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جلیبی دیکھ کر تو انگریز سرکار بھی پریشان تھی‘ سوچتی تھی اس ٹیوب میں شیرا کہاں سے بھرا جاتا ہے۔موسم سرما میں پاکستان میں قریب قریب ہر امیر اور غریب آدمی کے دسترخوان پر جلیبی ضرور موجود ہوتی ہے۔ موسم سرما میں جلیبی آپ کو پاکستان کے ہر صوبے ہر دیہات ہر شہر میں ملے گی۔ جہاں مٹھائی وہاں جلیبی!
لاہور کا پنجابی ہو یا لندن میں رہنے والا پاکستانی ہر خوشی کے موقع پر جلیبی کھانا نہیں بھولتا اور پنجاب کے بعض علاقوں میں بھی بچوں کی شادی بغیر جلیبی کے ہو ہی نہیں سکتی۔ماہر کاریگر جلیبی تیار کرنے کیلیے میدے کا خمیر تیار کرتے ہیں،جس میں رنگ ڈال کر اسے پکایا جاتا ہے،پھر چینی کے شیرے میں ڈبو کر جلیبی میں مٹھاس بھری جاتی ہے، موسم سرما میں لوگ دودھ جلیبی بھی شوق سیکھاتے ہیں۔یوں تو بل کھاتی جلیبی زندگی کے پیچ وخم کو ظاہر کرتی ہے، لیکن شیرہ ٹپکاتی جلیبی کی مٹھاس بتاتی ہے کہ زندگی نمکین ہی نہیں میٹھی بھی ہے۔دودھ کے پیالے سے اٹھتی بھاپ کے ساتھ اُس میں دودھ میں ڈوبی ہوئی نرم گرم جلیبیاں صحت اور تندرستی کی ضمانت سمجھی جاتی تھیں۔ افسوس صد افسوس ہم کیسی کیسی نعمتوں کو بھول گئے۔ ہفتے میں ایک بار بھی اگر آدھا کلو دودھ میں ایک پاو جلیبیاں کھالی جائیں توزندگی کا رنگ ہی بدل جاتا ہے۔ کمردرد، تھکاوٹ، پریشانی، اعصابی تناو، نزلہ، زکام، بخار، ہڈیوں، جوڑوں کا درد‘ سردرد‘ پٹھوں کا دردکھچاوجیسی بیماریوں کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ آپ کے قریب بھی آئیں۔
کاش! ہم ہماری نئی نسل ہمارے بزرگوں کے روایتی ٹوٹکوں کا احترام کرے اور ان لاجواب ذائقہ دار ٹوٹکے کو سمجھ کر اس پر عمل کرکے زندگی کا لطف دوبالا کریں۔