پاکستان میں موسمی تبدیلیوں کے مہلک اثرات
پاکستان میں شروع ہی سے گلوبل وارمنگ کے مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ پاکستان میں موسمی تبدیلیوں کے مہلک اثرات کے بارے میں بین الاقوامی برادری ہمیں مطلع کرتی رہی ہے حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے 1989 ء سے پاکستان کو نہ صرف تیزی سے بدلتی صورت حال سے خبردار کر رکھا تھا بلکہ اقوام متحدہ نے تو تین عشرے پہلے ہی ہمیں ان ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جوسمندروں میں پانی کی بلند ہوتی سطح کے باعث خطرے سے دوچار ہیں۔ پاکستان کو ماحول کے حوالے سے اس وقت دیگر ممالک کی نسبت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ابھی چند ماہ پہلے پاکستان کے ایک بڑے شہر کو دنیا کا آلودہ ترین شہر قراردیا گیا تھا۔ہمارے ہاں ماحول کی آلودگی اور گلوبل وارمنگ میں جہاں قدرتی عوامل کا دخل ہے اس سے کہیں زیادہ ہمارااپنا عمل دخل بھی ہے۔
ہماری سڑکوں پر ناقص پٹرول کے باعث نکلتا زہریلا دھواں بڑی آلودگی کا سبب ہے۔لیکن ان سب سے زیادہ خطرناک عمل درختوں کی کثرت سے ہوتی کٹائی ہے جسے بے ہنگم بڑھتی آبادی کے سبب رہائشی کالونیوں میں تیزی سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ایک طرف بڑھتی آبادی فضائی آلودگی کا باعث بن رہی ہے تو دوسری جانب بنی نو انسان آکسیجن جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
بد قسمتی سے بین الاقوامی طور پر پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ دس سر فہرست ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان میں کاربن کے اخراج کی یہی صورت ِحال برقرار رہی تو اگلی چند دہائیوں تک پاکستان کے درجہ حرارت میں 4.9 ڈگری سنٹی گریڈ تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان چونکہ قطب شمالی اور جنوبی کے بعد سب سے زیادہ گلیشئرز رکھنے والا ملک ہے جہاں حال ہی میں معمول سے ہٹ کر گلیشئیرز پگھلنے کی وجہ سے ایک طرف تو سطح سمندر بلند ہوئی جبکہ دوسری طرف شمالی علاقہ جات میں پانی کے اچانک خلافِ معمول بہاؤ کے سبب آمدورفت کے کچھ مسائل بھی کھڑے ہو گئے تھے۔ ان علاقوں میں کثرت سے ہوتی لینڈ سلائیڈنگ کو بھی نظر اندازنہیں کیاجا سکتا جو موسمی تبدیلیوں کے سبب آئے دن کا معمول بن چکا ہے۔
آج کل ہر کچھ عرصے بعد دنیا کے مختلف علاقوں سے جنگلات میں آگ لگنے کی خبریں آتی رہتی ہیں جس کی بنیادی وجہ ہی درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ہے۔جس کی وجہ سے جہاں ایک طرف کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس میں اضافہ ہو جاتاہے تو دوسری طرف جنگلوں میں بسی جنگلی حیات متاثر ہوتی نظر آتی ہے۔گلوبل وارمنگ کے سبب عالمی طور پر گلیئشیرز پگھل کر ایک طرف سطح سمندر کو بلند کرتے آرہے ہیں تو دوسری طرف سیلاب کے خطرات میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یہ اور کچھ دیگر عوامل ایسے ہیں جنکی وجہ سے عالمی طور پر درجہ حرارت میں رفتہ رفتہ اضافہ ہو رہاہے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک عالمی ادارے کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ آنے والے30 سالوں میں دنیا شدید گرمی کی لپیٹ میں ہوگی۔جس میں گرم ممالک تو متاثر ہونگے ہی سرد ممالک بھی گرمی کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ اس تحقیق میں خلیج فارس کاذکر بطور خاص کیا گیا ہے جہاں گیسوں کی موجودگی سے گرمی میں نمایاں اضافہ ہوگا اور زمین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گی۔اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایران،عراق، سعودی عرب، دبئی کے علاوہ پڑوسی ممالک میں اس قدر شدید گرمی ہو گی کہ چھ گھنٹے کا درجہ حرارت 60 سے 74 سنٹی گریڈ تک جا سکتا ہے۔
اگر ہم چند نقاط پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں تو گلوبل وارمنگ کے اس ”سونامی“کو بہت حد تک کم کر سکتے ہیں۔عالمی معیار کے مطابق کسی بھی خطے کے کل رقبے کا 25 فیصد جنگلات کیلئے مختص ہونا چاہئے۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے کل رقبے کے3 فیصد کے لگ بھگ جنگلات تھے جو بڑھنے کی بجائے کم ہوتے ہوتے اب ایک فیصد رقبے کے برابر رہ گئے ہیں جو یقینا ہم سب کیلئے لمحہء فکریہ ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پرزیادہ سے زیادہ نئے درخت لگائے جائیں اور پہلے سے لگے درختوں کی حفاظت کی جائے۔ ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ عالمی درجہ حرارت کم کرنے میں درخت ہی سب سے موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ گرین ہاوس گیسوں سے 64 فیصد اخراج انسانی سرگرمیوں کے باعث ہے۔
موسمی اثرات کو کم کرنے کیلئے قابل تجدید توانائیوں کو رواج دینا چاہئے۔ آب پاشی کیلئے شمسی توانائی ہی پہلی ترجیح ہونا چاہئے۔۔ائیر کنڈیشنرز کا استعمال محدود کیا جائے۔ اے سی اور ریفریجریٹربھی مضر صحت گیسیں خارج کرتے ہیں۔زراعت میں کیمیائی کھادوں کی جگہ قدرتی کھاد کے استعمال کوترجیح دینا چاہئے۔