وادی کیچ

بلوچستان کی سرزمین پر وادی کیچ کو قدیم تہذیب اور ثقافت کی امین سمجھا جاتا ہے۔ کیچ پنوں کا سرزمین بھی کہا جاتا ہے، یہاں قدیم تاریخ، تہذیب و تمدن کے ہزاروں سال قبل کے ثقافتی ورثے پائے جاتے ہیں، جن کا کھوج لگانا اب بھی باقی ہے۔ماضی میں وادی کیچ کو فتح کرنے کے لیے کئی جنگیں لڑی گئی ہیں۔ اس سرزمین پر مختلف ادوار میں مختلف قوموں نے حکمرانی کی ہے۔ کیچ کے زرخیز سرزمین میں قدیم تہذیب کے آثار اور باقیات اب بھی موجود ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہزاروں سال قبل بلوچستان کی یہ وادی نہایت اہمیت کی حامل تھی اور یہاں کے باسی ہنرمند تھے۔’میری قلات‘ کیچ کے شمال مغرب کی طرف تربت سے تقریباً 10 سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک قدیم اور تاریخی مقام ہے۔ ایک اونچے ٹیلے پر بنے ہوئے بڑے قلعے کے آثار اور باقیات کھنڈرات کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ عدم توجہ کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ مقامی طور پر ’میری قلات‘ اور ’پنوں قلات‘ کے نام سے جانے جائے والے اس تاریخی اور قدیم قلعے کے آثار اور باقیات کھنڈرات کی شکل میں رہ گئی ہیں۔قلعے کی دیواروں اور برجوں کی باقیات دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہونے کی وجہ سے اس قلعے کی پرانی دیواریں چھپی ہوئی ہیں۔ غالب امکان یہ ہے کہ 10 میٹر اونچائی تک عمارتیں ہزاروں سال پہلے رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتی تھیں۔ اس وقت صرف قلعے کے اوپری حصے کی باقیات اور آثار باآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ جبکہ مٹی اور پتھروں سے بنے ہوئے اس قلعے کی تعمیر میں لکڑیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ قریب جانے سے قلعے کی چھتوں پر لکڑی بھی نظر آتی ہے۔
قلعے کے احاطے میں تین کنوؤں کے آثار بھی پائے جاتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہزاروں سال قبل یہاں کے لوگ سنگ تراشی اور مٹی سے قلعہ بنانے کے ہنر سے خوب واقف تھے۔ یہ قلعہ مٹی اور پتھروں سے بنایا گیا ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ پتھر اور مٹی دریائے کیچ کور سے لیے گئے ہیں، کیونکہ دریائے کیچ ’میری قلات‘ کے قریب سے گزرتا ہے۔قلعے کو بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ بنانے کے لیے چاروں طرف مورچے قائم کیے گئے تھے اور آثار سے نظر آتا ہے کہ ان مورچوں کے ذریعے قلعے کی حفاظت ہوتی تھی۔ اس قلعے کے چاروں اطراف بنے مورچوں کے نشانات کے آثار اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ قریب کجھوروں کے باغات ہیں۔ اس قلعے کی کھدائی سے کم و بیش یہاں پر 2700 قبل مسیح سے الگ بھگ سو سال قبل تک مسلسل قبضے کے شواہد سامنے آتے ہیں۔
12ویں صدی میں اس علاقے میں میر جلال خان ہوت حاکم تھے، اور مقامی روایت سے سسی اور پنوں کی داستان سے اس قلعے پر ہوت قبیلہ کی حکمرانی کو تقویت ملتی ہے۔ایک اندازہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس قلعے میں 12 مختلف ادوار سے لوگ آباد تھے اور یہ 5500 سے 6000 سال پرانا ہے۔کھدائی میں مٹی کی رنگت سے مختلف ثقافتوں کو شناخت کیا جاتا ہے، سب سے قدیم ثقافت قلعے کے نیچے کی مٹی سے شناخت ہوتی ہے اور اوپری مٹی سے آخری ثقافت کو شناخت کیا جاتا ہے، اور تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہاں 12 مختلف بادشاہ اور ثقافتوں کے لوگ رہائش پذیر تھے۔غالب امکان یہ ہے کہ اس تاریخی قلعے میں مختلف ادوار میں مختلف بادشاہوں اور حکمرانوں کا راج تھا، جن کو اپنے ادوار میں غیر مشروط طاقت حاصل تھی۔ یہ بھی امکان ہے کہ اس سرزمین پر منگول، عرب، یونانی اور غزنوی مختلف ادوار میں حاکم رہے ہیں 
 جبکہ اس حوالے سے کوئی تاریخی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔
ماہرین آثار قدیمہ اس بات پر متفق ہیں کہ ہزاروں سال قبل اس قدیم قلعے میں کئی اقوام اور ثقافتوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔ بلوچی لوک داستان اور شعری میں موجود سسی پنوں کے عشقیہ داستان سے اس قلعے کے ماضی کے بارے کے صرف ایک حصے کے بارے میں معلومات ملتی ہے اور باقی 11 ادوار کے حوالے سے تاریخی دستاویزات اب تک غائب ہیں۔

 

Daily Program

Livesteam thumbnail