ماحولیاتی آلودگی سے سالانہ چالیس سے نوے لاکھ انسان قبل ازوقت موت کا نشانہ
ماحولیاتی آلودگی دنیا کا سب سے گھمبیر مسئلہ ہے، عالمی برداری کی جانب سے دنیا کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے ماحولیات کے تحفظ پر سب سے زیادہ ضرور دیا جاتا رہا ہے۔دنیا نے ترقی کی منازل میں قدرتی تدابیر کو شدید نقصان پہنچایا اور جدیدیت کی جانب گامزن ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر مملکتوں نے ماحول دوست پالیسیاں اختیار میں سست روئی کا مظاہرہ کیا جس کے باعث دنیا کو ماحولیاتی مسائل کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے سبب انسانی زندگی کو کئی مہلک بیماریوں کا سامنا بھی ہے، ماحولیات پر تحقیق کرنے والے کئی اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انسان کو ہارٹ اٹیک، دمے کے مرض میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ناروے کے ایک ماحولیات سے متعلق تحقیقی ادارے 'سینٹر فور انٹرنیشنل کلائمیٹ ریسرچ' اور کچھ دیگر اداروں کی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی کمی کے باعث اچانک دل کے دورے سمیت دمے کے مرض سے اموات سے نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تحقیق کے دوران 27 ممالک کے 10 ہزار سے زائد ایئر مانیٹرز کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے اور اس کا موازنہ گزشتہ تین سال کی ایئر کوالٹی کے اعداد و شمار سے کیا گیا ہے۔تحقیق کاروں نے ہوا میں پائے جانے والے تین آلودہ عناصر نائٹروجن ڈائی آکسائڈ، اوزون اور پی ایم 25 پر تحقیق کی ہے جو انتہائی چھوٹے ذرات ہوتے ہیں اور پھیپھڑوں میں داخل ہو کر انہیں نقصان پہنچاتے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کے باعث ہر سال تقریباََ 40لاکھ بچے دمے کے مریض بن جاتے ہیں، اسی طرح اوزون اور پی ایم25کے ہوا میں موجود ذرات سالانہ 40سے90لاکھ قبل ازموت کا باعث بنتے ہیں۔ ماحولیات کے عدم توازن کے باعث انسانوں میں ہارٹ اٹیک، دل کے دیگر امراض، پھیپڑوں اور سانس کے کئی بیماریوں کا موجب بنتے رہے ہیں۔تحقیق کے مطابق ہوا میں پائے جانے والے ان ذرات کی کمی سے محتاط اندازے کے مطابق موات کم ہوئی ہیں جب کہ بچوں میں دمے کے کیسز کم سامنے آئے ہیں۔محققین کا اندازہ ہے کہ صرف بھارت میں ہی صاف آب و ہوا سے سینکڑوں زندگیاں محفوظ ہوئی ہیں جب کہ چین میں بھی ماحولیاتی آلودگی کی کمی باعثکم اموات ہوئی ہیں۔تاہم اس اَمر کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ یہ سب تادیر قائم رہنے والا نہیں ہوگا، کیونکہ لاک ڈاؤ ن طویل عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گا اور رفتہ رفتہ دنیا میں ماحولیات کے حوالے سے بے احتیاطی و عدم تدابیر حالات کو پہلے جیسا تبدیل کرسکتی ہیں۔ اس لئے تاحال ماحولیات پر جو تحقیق کی جا رہی ہیں، وہ زیادہ زود اثر و تادیر قائم نہیں رہ پائیں گی اور کروناوبا کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا کو ایک بار پھر ماحولیات میں تبدیلی کے لئے اُن منصوبوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا، جو پیرس کانفرنس میں طے کی جاچکی ہیں۔کرونا وبا کے سبب لاک ڈاؤن سے قبل عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بیماریوں میں اضافے و موسم میں تبدیلی جیسے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ماحولیاتی کمی کے اقدامات پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو سالانہ10 لاکھ جانوں کو بچانا ممکن ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ گرمی میں اضافے کا سبب بننے والی کاربن گیسوں کا خراج اگر کم ہوجائے تو سالانہ لاکھوں انسانوں کو موت کی منہ میں جانے سے روکا جاسکتا ہے۔ پانی کی آلودگی بھی انسانوں کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کے سبب پھیپھڑے، گردے اور دل کی بیماریوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے
، یہاں افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ عالمی درجہ حرارت کے تیزی سے بڑھنے کے باوجود عالمی سطح پر صرف ایک فیصد فنڈ ہر خرچ کیا جاتا ہے، یہ صورتحال دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے انتہائی ناکافی ثابت ہوا ہے۔ فضائی آلودگی کا سبب بننے والی گرین ہاس گیسز کے گزشتہ سال ریکارڈ اخراج کے باعث موجودہ صدی میں عالمی درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے صحت پر پڑنے والے اثرات 21 ویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہے عالمی ادارہ صحت کے ماہر کیمبیل لینڈرم کا کہنا ہے کہ کاربن کے اخراج سے ہمیں غذا اور پانی کی کمی جبکہ ہوا میں آلودگی جیسے مسائل کا سامنا رہے گا۔
اگر اس موقع پر شجر کاری مہم کو مربوط انداز میں اپنایا جائے تو ایک جانب بے روزگاری کا مسئلہ کم ہوسکتا ہے تو دوسری جانب شجر کاری مہم سے کرونا وبا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانے میں اہم مدد مل سکتی ہے۔ ٹریٹمنٹ پلانٹس، ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کیلئے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی سموگ کو فعال کرنا اور ماحولیاتی لیبارٹریز کو موثر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے فاضل مادوں کے اخراج کو محفوظ طریقے سے تلف کرانے پر سخت اقدامات ماحولیاتی آلودگی کی کمی کے لئے ناگزیر ہیں۔صوبائی حکومتیں اگر ری۔سائیکلنگ اشیا کا استعمال کو ترجیح دیں اور موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرائیں تو کچرا بننے کے امکانات کم سے کم ہو سکتے ہیں۔۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک، ترقی پزیر ممالک کو اپنے فروعی ایجنڈے کے تحت کالونیاں بنانے کے بجائے ماحولیات کی تباہ کاریوں کے سدباب کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔