قلعہ پھروالہ... گکھڑوں کی عظمت کا نشان
پوٹھوہار کے علاقے میں موجود قلعہ پھروالہ کی گکھڑقبیلے کاقدیم ترین ثقافتی ورثہ ہونے کی وجہ سے ایک تاریخی حیثیت رہی ہے۔ چار مربع کلومیٹر رقبے پر محیط یہ قلعہ اسلام آباد سے مشرق کی جانب 30کلومیٹر اور تحصیل کہوٹہ کے سنگم پر واقع ہے۔ اسلام آباد سے قلعہ کی مسافت تقریباً سوا گھنٹے ہے۔ ایک جانب دریائے سواں اور دوسری طرف کوہ ہمالیہ کی پہاڑی ہونے کی وجہ سے اسے محفوظ مقام سمجھا جاتا تھا۔
تاہم، موسمی تغیرات، شکست و ریخت اور مختلف ادوار میں حکومتوں اور وزارت ثقافت و محکمہ آثار قدیمہ کی عدم توجہی کے باعث یہ قلعہ ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہو گیا۔ اس کی بیشتر دیواریں اور دروازے مکمل طور پر منہدم ہو چکے ہیں اور اب محض ایک خستہ حال دروازہ اور چند دیواروں کے آثار باقی رہ گئے ہیں۔ بچ جانے والی دیواروں کی اُونچائی 28سے30فٹ اور چوڑائی10فٹ ہے۔ قلعہ پھروالہ کی فصیل اونچے نیچے پہاڑوں پر کس شان سے دُور دُور تک پھیلی ہوئی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے یہ قلعہ ناقابل تسخیر قلعوں میں سے ایک ہوگا۔
مورخین کے مطابق گکھڑوں کے سلطان کیگوہر خان نے دفاعی ضروریات کے پیش نظر 11ویں صدی کے آغاز میں پھروالہ قلعہ کا سنگ بنیاد رکھا اور یہ گکھڑوں کا دارالخلافہ بھی رہا۔ اس کے6دروازے تھے، جنہیں ہاتھی دروازہ، لشکری دروازہ، باغ دروازہ، قلعہ دروازہ، زیارت دروازہ اور بیگم دروازہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس کا مرکزی لشکری دروازہ دریا کی سمت بنایا گیا تھا، جس کی اونچائی 26 فٹ اور چوڑائی 14فٹ رکھی گئی تھی۔ ہاتھی دروازہ شمال مشرق جانب جبکہ بیگم دروازہ جنوب مغرب کی طرف کھلتا تھا جو کہ بری طرح تباہ ہوچکے ہیں۔ قلعہ کی حفاظت کے لیے چیک پوسٹیں بھی بنائی گئی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ دفاعی حکمت عملی کے تحت قلعہ میں ہر وقت گکھڑوں کے 500پیادہ فوجی، 50ہاتھی اور100گھوڑے موجود رہتے تھے۔ قلعے کے اندر گکھڑ قبیلے کے آخری سلطان مقرب خان کا مقبرہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ قلعے کی عقبی دیوار کے ساتھ شمال کی جانب برگد کا ایک درخت ہے جس کے نیچے چند پرانی قبریں بھی موجود ہیں۔ یہاں ایک قدیم مسجد کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ گکھڑ قبیلہ پنجاب میں 682ء سے آباد ہے۔ مستند تاریخ میں محمود غزنوی اور پرتھوی راج کی 1008ء میں لڑی جانے والی لڑائی کا ذکر ہے جو کہ اٹک میں چھچھ کے مقام پر لڑی گئی۔ سلطان محمود غزنوی نے واپس جاتے ہوئے غالباً فتح کی خوشی میں دریائے سندھ اور جہلم کا درمیانی علاقہ، جو جنگی حوالے سے انتہائی اہم تھا، کیگوہر خان کو سونپ دیا۔ اس کے علاوہ علاو? الدین خلجی نے قلعہ پھروالہ کو اپنی سرحدی فوج کا ہیڈ کوارٹر قرار دیا تھا۔ فیروز شاہ تغلق نے بھی قلعہ پھر والہ میں قیام کیا۔ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر جب 1519ء میں ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو ان دنوں پوٹھوہار کا علاقہ دو حصوں میں تقسیم تھا۔
ایک علاقے پر تاتار خان (اس کا صدر مقام پھروالہ قلعہ تھا) اور دوسرے حصے یعنی کوہستانی علاقے پر اس کا چچازاد ہاتھی خان حکمران تھا۔ بابر کے بھرہ میں قیام کے دوران ہاتھی خان نے تاتار خان کو قتل کر کے اس کا علاقہ ہتھیا لیا تھا۔ جب بابر کو اس واقعے کی اطلاع اور ہاتھی خان کی مسافروں کو لوٹنے کی شکایات موصول ہوئیں تو اس نے قلعہ پھروالہ کا محاصرہ کر لیا۔ سخت لڑائی کے بعد بابر کو فتح ملی تو ہاتھی خان قلعہ سے فرار ہو گیا۔ بعد ازاں ہاتھی خان کی صلح نامے کی درخواست پر بابر نے اسے معاف کر دیا اور اسے سلطان کے لقب سے نوازا۔ یہیں سے مغلوں اور گکھڑوں کی دوستی شروع ہوئی۔
1525ء میں ہاتھی خان کی موت کے بعد تاتار خان کا بیٹا سلطان سارنگ خان حاکم بنا۔ شیرشاہ سوری سے شکست کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں نے جب شاہ ایران کی فوجی مدد سے ہندوستان کا دوبارہ رُخ کیا تو اس نے دریائے سندھ کو عبور کر کے قلعہ پھروالہ میں قیام کیا تھا۔ یہاں اس کے ساتھ شہزادہ اکبر بھی تھا۔ گکھڑوں نے ہمایوں کو اپنی کھوئی ہوئی سلطنت واپس دلانے میں بھرپور مدد کی۔
اس کے بعد جب اکبر بادشاہ بنا تو اس نے سلطان سارنگ خان کے بیٹے سلطان کمال خان کو پوٹھوہار کا علاقہ دینے کے ساتھ اسے مغل فوج میں پنج ہزاری کا خطاب دیا۔ مغلوں اور گکھڑوں کی قربت کا اندازہ ان کی آپس میں شادیوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ سلطان سارنگ خان کی پوتی جہانگیر سے بیاہی گئی۔ علی قلی خان کی بیٹی اورنگزیب کے چوتھے بیٹے شہزادہ اکبر کے عقد میں آئی۔
گکھڑوں کے آخری سلطان مقرب خان نے مغرب میں یوسفزئی افغانوں اور قلی خان رئیس خٹک کو شکست دے کر اپنی ریاست سندھ سے چناب تک پھیلا دی۔ بعد ازاں، 1825ء میں سکھوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے آگے مقرب خان نہ ٹھہر سکا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں سکھوں نے قلعہ پھروالہ پر قبضہ کرکے اسے کھنڈر بنا دیا اور یوں پوٹھوہار پر گکھڑوں کے 750سالہ دورِ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ پھروالہ کا قلعہ پوٹھوہار کی ایک پوری تاریخ کا گواہ ہے۔ اس قلعے کو 1955ء میں محکمہ آثارِ قدیمہ کے سپرد کیاگیا۔ آجکل یونیسکو کے تعاون سے اس تاریخی قلعے کی بحالی کا کام جاری ہے۔