فنگول کا غار
آئرلینڈ کی لوک داستان کے مطابق اگر دیو نے آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ کو جوڑنے کیلئے اس شاہراہ کو تعمیر کِیا تھا۔تو سوال اٹھتا ہے کہ پھر کیا اسکاٹ لینڈ میں بھی اِس شاہراہ کا حصہ پایا جاتا ہے۔تو اس کا جواب ہاں میں ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے مغربی ساحل پر سٹافا Staffaنامی ایک جزیرہ ہے۔سٹافا کا مطلب“ستونوں کا جزیرہ”ہے اور واقعی یہاں ایسے ستون پائے جاتے ہیں جو آئرلینڈ میں پائے جانے والے ستونوں سے ملتے جلتے ہیں۔سکاٹ لینڈ کے دیوہیکل بینن ڈونر کو فنگول کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔سٹافا کے جزیرے پر ستونوں سے بنے چٹان میں ایک غار ہے جسے“فنگول کا غارFingal'sCave کہتے ہیں۔ اِس غار میں سمندر کی لہروں کے ٹوٹنے کی آواز نے جرمنی کے ایک کمپوزر کو اتنا متاثر کِیا تھا کہ سن 1832 میں اُس نے ایک سُر ترتیب دیا جسے ”فنگول کا غار“کا نام دیا گیا۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ ستون وجود میں کیسے آئے؟آیا کیا واقعی کبھی آئرلینڈ پر دیو ہیکل بستے تھے؟بعض سائنسدان اس کی یہ توجیح پیش کرتے ہیں کہ شمالی آئرلینڈ کی زمین کے نیچے چونے کے پتھروں کی ایک تہہ پائی جاتی ہے۔پرانے زمانے میں آتش فشانی عمل کی وجہ سے چونے کے پتھر میں شگافوں سے لاوا اُگلنے لگا۔لاوا کا درجہ حرارت ایک ہزار ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ تھا۔جب یہ زمین کی سطح تک پہنچا تو اس نے ٹھنڈا ہو کر پتھر کا روپ اختیار کر لیا۔
لیکن اس لاوے نے ستونوں کی شکل کیوں اختیار کر لی؟ اس کے متعلق ریسرچرز کہتے ہیں کہ مختلف قسم کے لاوے Magma میں جو کیمیائی عناصر پائے جاتے ہیں اِنکے مطابق لاوا کئی قسم کے پتھروں Molten rockکی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ شاہراہ کے ستون جس پتھر سے بنے ہوئے ہیں اُسے بسالٹ basalt کہتے ہیں۔ جب لاوا ٹھنڈا ہونے لگا تو اس میں موجود کیمیائی عناصر کی وجہ سے پتھر میں نیا شگاف پڑنے لگے۔ جیسے جیسے لاوا ٹھنڈا ہوتا گیا یہ شگاف ستونوں کی شکل اختیار کرنے لگے۔
ایسے ستون صرف آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ میں ہی نہیں پائے جاتے۔لیکن دوسرے ممالک میں جن علاقوں میں یہ ستون پائے جاتے ہیں وہاں اُنکو قریب سے دیکھنا آسان نہیں۔صرف آئرلینڈ کی شاہراہ کے چھ کونیا ستون بہت اچھی حالت میں ہیں۔اور وہ ایک ایسی جگہ واقع ہیں جہاں ان تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔