صحرائے صحارا میں لائبریریوں کا شہر
موریطانیہ کے عظیم ریت کے ٹیلوں کے کنارے بسا چنگویٹی شہر 1200 برسوں سے مسافروں کی پناہ گاہ رہا ہے۔صحرائے صحارا کے درمیان اس شہر کی بنیاد آٹھویں صدی میں رکھی گئی تھی۔زیارت کے لیے مکہ جانے والے مسافروں کے کارواں یہاں رکا کرتے تھے۔لال پتھروں والا یہ شہر آہستہ آہستہ مغربی افریقہ میں سائنس، مذہب اور ریاضی کے سب سے بڑے مقامات میں سے ایک بن گیا۔یہاں قانون، طب اور فلکیات کے ماہر رہتے تھے۔ مکہ جانے والے مسافر اور مختلف علوم کے ماہر یہاں آتے جاتے رہے۔
تیرہویں صدی سے لے کر سترہویں صدی تک چنگویٹی میں 30 لائبریریاں تھیں جہاں تحریروں کو سنبھال کر رکھا جاتا تھا۔آج بھی ان میں سے پانچ لائبریریاں موجود ہیں۔لائبریری میں کتابوں کو محفوظ کرنے کے کام پر مامور افراد صحارا کی ریت سے کتابوں کومحفوظ رکھتے ہیں۔
شہر میں لال پتھروں سے بنی عمارتوں کی دیواریں چوڑی ہیں۔ ان کے درمیان لکڑی کے چھوٹے چھوٹے دروازے ہیں۔اندر داخل ہونے پر ہزاروں کتابیں ملتی ہیں، جن کو صندوقوں میں سنبھل کر رکھا گیا ہے۔صحارا ریگستان وسیع ہو رہا ہے۔ جیسے جیسے یہ جنوب کی جانب بڑھ رہا ہے، چنگویٹی کی عمارتوں کی چھتوں پر بھی ریت جمع ہونے لگی ہے۔
'1930 سے 1995 کے درمیان کئی خاندان بڑے شہروں میں جا کر بس گئے کیوں کہ یہاں ان کے اونٹوں کے لیے گھاس نہیں بچی اور کوئی نوکری بھی نہیں تھی۔'نقل مکانی کرنے والے خاندان اپنی خاندانی تحریریں بھی ساتھ لے گئے۔ چنگویٹی میں اب 30 میں سے محض 12 لائبریریاں بچی ہیں۔ اور
ان میں سے بھی پانچ یا چھ ہی کھلتی ہیں۔ماحولیاتی تبدیلی کے سبب بادل پھٹنے اور شہر میں سیلاب آنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے بھی متعدد دستاویزات برباد ہو رہی ہیں۔چنگویٹی میں کسی لائبریری کا مالک ہونا معاشرے میں بڑی عزت کی بات ہوتی ہے۔ اسے آمدنی کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔
وہاں پر مامور افراد کا کہنا ہے کہ 'یقیناً ان کے پاس خزانہ ہے، لیکن انھیں یہ نہیں پتا کہ اس خزانے میں کیا کیا ہے۔ ہم ان کو بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ چیزیں کتنی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس خزانے کو رکھنا ہی کافی نہیں ہے۔ انھیں ہوا، پانی اور نمی سے پچانا بھی ضروری ہے۔'
چنگویٹی کے اچھے دن نہیں رہے۔ اس شہر میں اب سیاح کم آتے ہیں۔ لوگ کتابوں کو بھولنے لگے ہیں۔
کتابوں کا تحفظ کرنے والوں نے کتابوں کو بچانے کے لیے چنگویٹی سے باہر نکالنے کی کوشش کی۔ لیکن شہر کے لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ کتابیں ان کے بزرگوں کی جائیداد ہے۔