روشنی کی آلودگی

                                    
دنیا بھر میں روشنی کی آلودگی ایک ابھرتا ہوا مسئلہ ہے جس میں سالانہ دو فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 'لائٹ پولوشن‘ سے زمین کے ماحول اور  انسانوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
گزشتہ برس جنوری میں ایک تکنیکی خرابی کے باعث پاکستان کا ایک بڑا حصہ تاریکی میں ڈوب گیا تھا، جسے درست کرنے میں تقریباً 20 گھنٹے لگ گئے تھے۔ اس واقعے کا سوشل میڈیا پر بہت چرچا رہا کیونکہ کراچی اور لاہور  جیسے گنجان آباد علاقوں کے رہائشی روشنیوں کی بہتات کے باعث حقیقی آسمان دیکھ ہی نہیں پاتے۔ بہت سے لوگوں نے پہلی بار جانا کہ لائٹ پولوشن بھی آلودگی کی ایک قسم ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف ہم سے رات کا دلکش آسمان چھن گیا ہے بلکہ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بھی بن رہی ہے۔
 دراصل ہمارے ارد گرد موجود تمام مصنوعی روشنیاں لائٹ پولوشن کا سبب بن رہی ہیں۔ ان میں گھروں، تفریحی مقامات، شاپنگ مالز، ہوٹلز اور اسٹریٹ لائٹس وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسمارٹ فونز سے خارج ہونے والی روشنیاں بھی لائٹ پولوشن میں حصہ دار ہیں جن سے سب سے زیادہ انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔
 فضائی، آبی اور دیگر آلودگیوں کی نسبت روشنی کی آلودگی  کا آغاز ہوئے ابھی اتنا عرصہ نہیں ہوا۔ 1879 میں تھامس ایڈیسن نے بلب ایجاد  کیا، تو اس سے پہلے مصنوعی روشنیوں کا واحد ذریعہ آگ تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگیوں اور ایکو سسٹم پر لائٹ پولوشن کے اثرات ابھی تک اتنے گہرے نہیں ہیں بلکہ پاکستان میں تو بہت سے لوگ اس سے آشنا بھی نہیں۔
 ٹیکنالوجی کے انقلاب اور جدید طرز زندگی کے باعث امریکا اور یورپ کے 99 فیصد علاقے روشنی کی شدید آلودگی کا شکار ہیں۔ جبکہ عالمی سطح پر 83 فیصد آبادی اس آلودگی کی زد میں ہے۔ یہاں روشنی کی زیادتی ذہنی صحت کے ساتھ ایکو سسٹم پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق لائٹ پولوشن میں دو فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں شہری آبادی بڑھنے کے باعث اگلے چند برسوں میں  اس تناسب میں تیزی سے اضافے کا امکان ہے۔
یہ روشنیاں جو آج کل کے طرز زندگی کا حصہ ہیں، انہیں جلانے کے لیے توانائی درکار ہوتی ہے، جو زیادہ تر فوسل فیول سے حاصل کی جا رہی ہے۔ فوسل فیولز کا بڑھتا ہوا استعمال دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کی شرح تیز تر کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
 روشنی کی آلودگی جنگلی حیات کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔اس سے پودوں اور جانوروں کی فزیالوجی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے  ہیں۔ دنیا بھر میں کئی جانور اور پرندے سال میں دو مرتبہ اپنے طے شدہ راستوں سے ہجرت کرتے ہیں۔ مگر ان راستوں پر بڑھتی ہوئی مصنوعی روشنیوں سے یہ بھٹک کر مر جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق صرف امریکا میں ہر برس 100 ملین سے 1 بلین ہجرتی پرندے مصنوعی روشنیوں کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں۔
بہت سے جانور جو رات میں شکار کرتے ہیں وہ جنگلات کی کٹائی اور روشنیوں کی زیادتی کے باعث شکار کرنے سے قاصر ہیں۔ جنگل میں شکار اور شکاری خوراک کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں جس سے فوڈ چین بنتی ہے۔ لائٹ پولوشن سے یہ فوڈ چین شدید متاثر ہو رہی ہے اور بہت سے جانوروں کے ناپید  ہو جانے کا  اندیشہ ہے۔
انسانی جسم کا نظام قدرت کے مخصوص چکر پر چلتا ہے جسے 'سر کیڈین ردھم‘ کہا جاتا ہے اور جس میں سونے اور جاگنے کے اوقات بھی شامل ہوتے ہیں۔ سوتے وقت ہمارا دماغ ایک ہارمون میلاٹونن خارج کرتا ہے جس کے اخراج کا تعلق اندھیرے سے ہوتا ہے۔
اگر سوتے وقت دماغ پر روشنی پڑے جیسے سمارٹ فون ساتھ رکھ کر سونا تو میلاٹونن کا اخراج متاثر ہوگا۔ اس سے نیند میں خلل اور صحت کے  دیگر مسائل جیسے  سر درد، تھکاوٹ، اعصابی تناؤ، نیند کی کمی کی وجہ سے موٹاپا، ڈپریشن اور کینسر کی کئی اقسام لاحق ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جن میں بریسٹ کینسر سر فہرست ہے۔
 سب سے زیادہ نقصان دہ اسمارٹ فونز کا استعمال ہے جس سے خارج ہونے والی روشنی بینائی اور مینٹل ہیلتھ کے مسائل کو بڑھا رہی ہے۔ لوگ چڑچڑے، غصیلے اور بد مزاج ہوتے جارہے ہیں اور ان کی برداشت  کی صلاحیت دن بدن کم ہو رہی ہے۔
شہری علاقوں میں آبادی بڑھنے کے ساتھ پاکستان میں لائٹ پولوشن میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جس میں کراچی سر فہرست ہے۔
سب سے پہلے ہمیں ان ڈور اور آؤٹ ڈور لائٹ پالیسی بنانی اور رائج کرنا ہوگی تاکہ گھروں اور عوامی مقامات پر روشنیاں ان حدود کے اندر رہیں اور ایک لائٹ امپلی مینٹیشن پالیسی تیار کرنی ہو گی۔
 عوام میں  لائٹ پالوشن کے بارے مین شعور پیدا کرنا ہوگا تا کہ وقت پر اس پرقابو پایا جا سکے۔ ہم سے کہیں زیادہ آنے والی نسل لائٹ پولوشن سے متاثر ہوگی لہذا بچوں کو اس بارے میں سمجھانا اور سکھانا انتہائی ضروری ہے۔

 

Daily Program

Livesteam thumbnail