بچے من کے سچے
اچھے بچوں سے سب ہی خوش ہو تے اور انہیں پیار کرتے ہیں۔کاشی بھی ایک ایسا ہی آٹھ نو سال کا لڑکا تھا، جو نہایت تمیز دار اور پڑھائی لکھائی میں ذ ہین، نہ کسی سے لڑتا جھگڑتا اور نہ ہی اپنے الفاظ سے کسی کا دل دْکھاتا۔ وہ ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کر تا تھا۔اس کی اچھی عادتوں کی وجہ سے اسکول میں اس کے تمام اْساتذہ اور دوست اس سے بہت خوش تھے۔وہ ا پنے خا ندان کی تو آنکھ کا تا را تھا۔کاشی کی محبت ا پنی ماں سے زیادہ تھی اس لیے وہ جب گھر میں ہوتا تو اپنی امی کے پیچھے پیچھے ہی پھرتا رہتا اور ان کو اسکول میں ہونے والی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات بتا تا۔کاشی میں ایک اچھی عادت یہ بھی تھی کہ وہ اسکول سے کبھی چھٹی نہیں کرتا تھااسکی وجہ یہ تھی کہ اس کی ماں خود ا یک استانی تھی اور وہ سمجھتی تھیں کہ تعلیم حاصل کر نا بہت ضر وری ہے۔انھوں نے کاشی کو سمجھا یا تھا کہ چھٹیاں کرنے والے بچے پڑھائی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔اگر کبھی بخار کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہو جاتی تو اس کی امی کو زبردستی اس کی چھٹی کروانا پڑتی تھی ورنہ وہ تو چھٹی کرنے پر راضی ہی نہیں ہوتا تھا۔اس کے والدایک ڈاکٹر تھے اور ہسپتال کا کام ان کے ذمے تھا۔ پورے ہفتے اس کے ابّو کام پر ہوتے اوران چھ دنوں میں بھی رات کو دیر سے گھر آتے تھے۔اپنی ان مصروفیات کی وجہ سے وہ کاشی کو زیادہ ٹائم نہیں دیتے تھے مگر ان کو اس بات پر بہت اطمینان ہوتا تھا کہ ان کی سخت محنت کی وجہ سے ان کے گھر والوں کی زندگی ہنسی خوشی گزر رہی ہے۔ اتوار کے دن یا کسی دوسری چھٹی والے دن کاشی بہت خوشی ہوتا تھا کیوں کہ اس روز اس کے ابو گھر پر ہوتے تھے۔وہ چھٹی والے روز صبح سویرے اٹھ کر ابو کے پاس ہی اپنے کھلونے اور چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابیں لے کر قالین پر بیٹھ جاتا تھا۔ابّو اس کو دیکھ کر مسکرا دیتے ان کی یہ مسکراہٹ کاشی کو بہت اچھی لگتی تھی۔وہ چھٹی والے دن اپنے ابّو سے کسی قسم کی کوئی ضد نہیں کرتا تھا۔ اس کی امی نے اس کو سمجھا رکھا تھا کہ اس کے ابّو پورے ہفتے ہسپتال میں مصروف رہتے ہیں، چھٹی والا دن ان کے آرام کا ہوتا ہے، اس لیے ان کو تنگ نہیں کرنا چاہیے۔ یک دن اتوار کے روز کاشی کے ابّو ڈرائنگ روم میں ٹی وی پر اپنے پسندیدہ پروگرام سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس وقت کاشی اپنے کھلونوں کے سا تھ کھیل رہا تھا اور اس کی امی کچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔وہ اس بات پر بہت خوش تھیں کہ دوپہر کے کھانے پر سب ساتھ ہونگے اچانک دروازے پر گھنٹی بجی۔ ابّو نے کاشی کی طرف دیکھا تو وہ اٹھ کر کھڑکی کی طرف آیا تھوڑاپردہ ہٹا کر دیکھا اوربولا:ابّو فرا نسس انکل آئے ہیں۔ فرانسس ان کا دوست تھا مگر اس کی بے وقت کی آمد نے انھیں بدمزہ کر دیا تھا، کیونکہ ٹی وی پر ان کی پسند کا پروگرام چل رہاتھا۔ انہوں نے کاشی سے کہا:جاؤ ان سے کہہ دو ابّو گھر پر نہیں ہیں۔ ان کی یہ بات سن کر کاشی نے اپنا سر کھجا کر ان کی طرف دیکھا وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔کاشی کو حکم دے کر اس کے ابّو دوبارہ ٹی وی دیکھنے لگ گئے۔اِدھر وہ بھی خاموشی سے اپنی گاڑیوں کے پاس سر جھکا کر بیٹھ گیا۔کچھ دیر بعد گھنٹی پھر بجی تو اس کے ابّو نے غصہ بھری نظروں سے کاشی کو دیکھا اورتیز آواز میں بولے:بیٹا تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا ہے؟ گھنٹی کی اس دوسری آواز پر اس کی امی بھی کچن سے نکل کر وہاں آگئی تھیں۔ابّو کے سوال پر کاشی اپنی جگہ سے ْاٹھا اور ان کے قریب آ کر نہا یت ادب سے بولا:سوری ابّو میں فرا نسس انکل سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ گھر پر نہیں ہیں۔کیونکہ یہ تو جھوٹ ہے اور امی نے جھوٹ بولنے سے منع کیا ہے۔ ہماری مس بھی ہمیں بتاتی ہیں کہ جھوٹ بولنا بری بات ہوتی ہے اس لیے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔کاشی کی بات سن کر اس کے ابّو حیران رہ گئے۔ کاشی کی اس بات نے انھیں نہایت شرمندہ کیا۔ جبکہ کا شی اس انتظار میں تھا کہ اب اسے ابّو کی طرف سے ڈانٹ پڑے گی، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اس کے ابّو اْٹھے، کاشی کو گلے لگایااور بولے شاباش بیٹا آج تم نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ بچے بھی بڑوں کو اچھی باتیں بتا سکتے ہیں۔کاشی کی امی سب کچھ سمجھ گئی تھیں۔ انہوں نے مسکرا کر کاشی کو دیکھا مگر کچھ بولے بِناباورچی خانہ میں چلی گئیں۔ دس پندرہ منٹ گزرے ہونگے کہ کاشی نے اپنے ابّو کے زوردار قہقہے کی آواز سْنی اْس نے تھوڑا سا جھک کر کھڑکی سے باہر جھانکا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کے ابّو اور فرا نسس انکل لان میں بیٹھے باتوں میں مشغول ہیں۔کاشی کو نہ جانے کیوں یہ منظر بہت اچھا لگا اور وہ کھلونوں کو وہیں چھوڑ کر کھڑکی میں آ کر کھڑا ہوگیا اور انھیں دیکھنے لگا۔ اچانک اس کے ابّو کی نظر اس پر پڑ گئی۔کاشی گھبرا سا گیا مگر یہ دیکھ کر مطمئن ہو گیا کہ ابّو اسے دیکھ کر مسکرائے۔ فرا نسس انکل کے رخصت ہوجانے کے بعد اس کے ابّو نے ساری بات اس کی امی کو بھی بتا دی تھی۔ انکی خوشی کی کو ئی انتہا نہیں تھی کہ کاشی چھوٹی سی عمر میں ہی اتنا سمجھدار ہو گیا ہے۔ یہ بات سن کر
کا شی کی امی بھی بہت خوش ہوئیں اوراس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور دھیرے سے بولیں: شاباش بیٹا آج تم نے میرا اور اپنے ابّو کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔