براعظم انٹارکٹکا
براعظم انٹارکٹکا زمین کا انتہائی جنوبی خطہ ہے اور اس پر قُطب جنوبی واقع ہے اور اس براعظم کا کُل رقبہ 14 ہزار 4 سو 25 مربع کلومیٹر ہے اور سارا سال برف میں ڈھکا رہنے والا یہ براعظم چاروں طرف سے سمندر میں گھرا ہے اور انسان کے لیے اپنے اندر بیشمار حیرتوں کے خزانے لیے اسے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔انٹارکٹکا میں زمین کا سب سے زیادہ فریش پانی موجود ہے۔ایک اندازے کے مُطابق دُنیا کا 60 سے 90 فیصد تازہ پانی انٹارکٹکا میں ہے اور اس براعظم کی سطح پر موجود برف کی تہہ 14 ملین سکوئر کلومیٹر پر پھیلی ہُوئی ہے اور بعض مقامات پر یہ تہہ 4 کلومیٹر سے زیادہ موٹی ہے یعنی ماونٹ ایورسٹ کی بُلندی کا نصف صرف برف کی تہہ ہے اور اس براعظم کی زمین کا صرف ایک فیصد حصہ ایسا ہے جس پر برف نہیں ہے اور بہت کم علاقے ایسے ہیں جہاں گرمیوں میں برف پگھل جاتی ہے۔
انٹارکٹکا ایک صحرا ہے۔آپ سوچیں گے کہ اتنا پانی اور فریزر جیسا درجہ حرارت رکھنے کے باوجود یہ صحرا کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم اکثر خیال کرتے ہیں کہ صحرا میں ریت ہوتی ہے اور بہت زیادہ گرمی ہوتی ہے مگر زمین کے وہ علاقے جہاں بہت کم بارش ہو یا بلکل بارش نہ ہو اُنہیں بھی صحرا کہا جاسکتا ہے اور انٹارکٹکا میں موجود برف کی تہہ کو اتنا موٹا ہونے میں 45 ملین سال لگے ہیں اور یہ اتنی موٹی اسی لیے ہوپائی کیونکہ انٹارکٹکا میں انتہائی کم بارش ہوتی ہے۔یہ براعظم کبھی گرم مرطوب علاقہ تھا۔براعظم انٹارکٹکا میں زمین کا سرد ترین درجہ حرارت منفی93.2 ڈگری ریکارڈ کیا گیا اور اس علاقے کو گرم مرطوب سمجھنا عقل کے بالکل منافی ہے مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ خطہ آج سے 40 سے 50 ملین سال قبل ہرا بھرا جنگل ہوتا تھا جہاں درجہ حرارت 17 ڈگری تک چلا جاتا تھا۔
براعظم انٹارکٹکا کو اپنا کوئی ٹائم زون نہیں ہے اور یہاں دن اور رات سے وقت کا شُمار کرنا ناممکن ہے کیونکہ گرمیوں میں 24 گھنٹے سُورج نکلا رہتا ہے اور سردیوں میں رات ہی رہتی ہے اور وہ سائنس دان جو دُنیا کہ مختلف خطوں سے اس جگہ تحقیق کرنے آتے ہیں اپنے اپنے مُلکوں کا ٹائم زون استعمال کرتے ہیں۔یہاں بہت سے آتش فشاں پہاڑ ہیں اور دو پہاڑ لاوا اُگلتے ہیں۔ روز آئی لینڈ میں واقع ماونٹ اریبس دُنیا کا دُوسرا بُلند ترین آتش فشاں پہاڑ ہے اور اسے دُنیا کا انتہائی جنوبی آتش فشاں پہاڑ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے اور دُوسرا زندہ آتش فشاں ڈسیپشن آئی لینڈ میں واقع ہے جو اس علاقے کی سیاحت کرنے والوں کو اپنے پاس بُلاتا ہے۔
انسان نے یہ براعظم پہلی دفعہ 1820 میں دریافت کیا اور اس کی دریافت کے بعد بہت سے مُلکوں نے اسے اپنی سرزمین قرار دیا اور بہت سے دُوسرے مُلکوں نے اُن کی اس قبضہ گیری کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا پھر 1959 میں 12 ملکوں نے ایک معاہدے پر سائن کیے جسکے مُطابق یہ براعظم کسی کی بھی ملکیت نہیں ہے اور اس کی زمین کو امن اور سائنس کے لیے استعمال کیا جائے گا تب سے اب تک 41 مُلک اس معاہدے پر سائن کر چُکے ہیں اور اس خطے کا کوئی بھی فیصلہ آپس میں صلاح مشورے کے بغیر نہیں کیا جاتا۔ اس خطے میں مچھلی وغیرہ پکڑنے کے انتہائی سخت قانون ہیں نیزمعدنیات کے حصول کے لیے کُھدائی ممنوع ہے۔
اس براعظم میں ہر وقت خُشک اور تیز ہوائیں چلتی ہیں اور بعض دفعہ یہ تیز ہوا اس خطے کے کئی علاقوں میں 320 کلومیٹر کی رفتار تک چلی جاتی ہے۔یہاں 9ہزار فٹ تک کی بُلندی کے پہاڑ ہیں جو تقریباً 1200 کلومیٹر پر پھیلے ہُوئے ہیں اور یہ پہاڑ صدیوں سے برف کی تہہ کے نیچے دبے ہُوئے ہیں۔پینگوئنز اس براعظم کا جانورہے جو یہاں کالونیوں کی شکل میں رہتا ہے اور اس کا نر بادشاہ پینگوئن گرم خُون والا واحد جاندار ہے جو سارا سال حتی کہ سردیوں میں بھی یہ خطہ نہیں چھوڑتا اور اس پرندے کی مادہ سردیوں کے 9 ہفتے سمندر میں گُزار کر واپس اپنے نر کے پاس آجاتی ہے۔
1911 میں اس براعظم پر ایک حیرت انگیز واقع نوٹ کیا گیا جب اس خطے کے مشرقی حصے میں گلیشیر پر سُرخ پانی اُبلتا نظر آیا اور ایک عرصہ تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ پانی کیسے سُرخ ہُوا پھر 2017 میں سائنس دانوں نے اس راز سے پردہ اُٹھایا اور بتا یا کہ یہاں گلیشیر کے نیچے جھیل میں نمک اور آکسی ڈائزڈ آئرن پانی میں شامل ہے اور جب یہ آکسیجن کے ساتھ ملتا ہے تو آئرن پر زنگ لگنے سے پانی کا رنگ سُرخ ہو جاتا ہے۔