ہرمن نارتھروپ فرائی

ہرمن نارتھروپ فرائی(پیدائش:14۔جولائی1912،وفات:23۔جنوری 1991)کا تعلق کینیڈا سے تھا۔ وہ کینیڈا کے شہر شر بروک (Sherbrooke)میں پیدا ہوا۔سات برس کی عمر میں وہ مونکٹون پہنچا۔ بچپن ہی سے وہ فطین مستعد اور فعال طالب علم تھا، نصابی اور ہم نصابی سر گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔اس نے سکاؤ ٹنگ کی تربیت حاصل کی اور دکھی انسانیت کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کیا۔پیانو بجانا اور سائیکل چلانا اس کے مشاغل تھے۔ 1929میں اس نے اعلا تعلیم کی خاطر مونکٹون سے ٹورنٹو کاسفر کیا۔اس رجحان ساز نقاداور ادبی نظریہ ساز تخلیق کار کا شمار بیسویں صدی کے عالمی شہرت کے حامل انتہائی اہم اور موثردانش وروں میں ہوتا ہے۔ایک ذہین تخلیق کار کی حیثیت سے ہر من نارتھروپ فرائی نے افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب روشنی کے سفر کا آغاز کیا۔ کینیڈا کے ادب،ثقافت اور تہذیب و تمدن کے نباض کی حیثیت سے اسے جو مقبولیت نصیب ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ولیم بلیک(William Blake) کی شاعری کی نئی تفہیم اور نئی ترجمانی پر مبنی ہرمن نار تھروپ فرائی کی پہلی تصنیف (Fearful Symmetry)جب سال 1947میں منظر عام پر آئی تو دنیا بھر کے علمی و ادبی حلقوں نے اس کی زبردست پذیرائی کی۔اس کے ساتھ ہی ہرمن نار تھروپ فرائی شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچا۔ولیم بلیک(پیدائش:28 نومبر 1757،وفات:12۔اگست 1827)کے حقیقی مقام و مرتبے کے تعین میں اس کتاب کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ارد و زبان کی کلاسیکی شاعری میں اس کی بڑی مثال شیخ ولی محمدنظیر اکبر آبادی (پیدائش: 1740،وفات:1830)کی طرح ولیم بلیک کی شاعری کا حقیقی استحسان اس کی زندگی میں نہ ہو سکا۔جب وہ گریجویشن کی سطح پر تعلیم حاصل کررہا تھا تو اس نے ولیم بلیک کے مابعدالطبیعات پر مبنی پر اسرار خیالات اور پیشین گوئیوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا اور کئی حقائق کی گرہ کشائی کرنے کی سعی کی۔اس نے روحانیت کے حوالے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بادی النظر میں ولیم بلیک کی پیشین گوئیوں کے پس پردہ انجیل کی الہامی تعلیمات کے اثرات ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ولیم بلیک کی پیشین گوئیوں کے سوتے اس کی روحانیت،استغنا اور تپسیاسے پُھوٹتے ہیں۔ادبیات عالیہ کے دس سال کے مطالعات اور تحقیق و تنقید کا ثمر، Fearful Symmetry کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کتاب میں ہرمن نارتھروپ فرائی نے قارئین کو ولیم بلیک کی تخیلاتی دنیا کے پر اسرار ماحول سے روشناس کرانے کی کو شش کی اس کتاب کی اشاعت سے ولیم بلیک کے خیالات کے بارے میں پایا جانے والا ابہام دور ہوگیا۔اس کتاب کے مطالعہ سے قارئین کو تخلیق کار کی آواز، اسلوب اور تصور ِحیات سمجھنے میں مدد ملی۔ تحقیق و تنقید کا حسین امتزاج، حوالہ جات کی منفرد اور ممتاز کیفیت، اظہار و ابلاغ کی شان دل ربا ئی، جامع انداز میں موضوع کا احا طہ، سادگی اور سلاست، صداقت اور ثقاہت،دلائل اوربیانات کی مسحور کُن مطا بقت اور مو ضوع سے درد مندی اور خلو ص کے تعلق کی بنا پر اس کتا ب کو بے پنا ہ پذیرائی نصیب ہوئی۔ ولیم بلیک کے اسلوب کے بارے میں اس اہم تنقیدی تصنیف کے بعد ہرمن نار تھروپ فرائی کی ایک اورتصنیف ”Anatomy of Criticsm“کے نام سے 1957میں شائع ہوئی۔ بیسویں صدی میں ادبی تھیوری کے موضوع پر یہ کتاب کلیدی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔
وکٹوریا کالج یو نیورسٹی میں ہرمن نار تھروپ فرائی نے سال 1929میں داخلہ لیا جہاں وہ ٹائپ کے ایک مقابلے میں حصہ لینے کے بعدپہنچاتھا۔ وکٹوریہ کالج یونیورسٹی جس نے1836میں روشنی کے سفر کا آغاز کیا تعلیم کے وسیلے سے کردار کی تعمیر کی مساعی کے معتبرحوالے سے دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھتی ہے۔ فلسفہ اور ادیانِ عالم میں اپنی تعلیم ٹور نٹو یونیورسٹی سے مکمل کرنے کے بعدہرمن نارتھروپ فرائی نے 1936میں کچھ عرصہ چرچ کے منتظم کے طور پر کینیڈا میں خدمات انجا م دیں۔ وہ بچپن ہی سے ادب اور فنون لطیفہ کا شیدائی تھا۔ابتدائی تعلیم کے مراحل طے کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم کی خاطر میرٹون کالج آکسفورڈ پہنچا۔آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ 1939میں واپس ٹورنٹو پہنچااور اپنے محبوب تعلیمی ادارے وکٹوریہ کالج یو نیورسٹی میں تدریسی خدمات پر مامور ہوا۔سال 1952میں وہ اس عظیم اور قدیم مادر علمی میں انگریزی ادبیات کے شعبہ کا صدر بنا۔اس کے بعد وہ اسی تاریخی درس گاہ کا پرنسپل مقر ر ہوا اور نو برس (1968-1967)یہاں قیام کیا۔ اس مادر علمی کے ساتھ اس کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے اپنی پوری زندگی یہاں درس و تدریس میں گزار دی۔اس کی قابلیت اور وسیع تدریسی تجربے اور علمی خدمات کے اعتراف میں ہرمن نار تھروپ فرائی کو اس جامعہ کا چانسلر مقرر کیا گیا جہاں اس نے چودہ برس (1978-1991) تکخدمات انجام دیں۔ بر طانیہ اور امریکہ کی تمام بڑی جامعات میں اس کے توسیعی لیکچرز کا تواتر سے اہتمام کیا جاتا تھا جہاں لاکھوں طلبا اس رجحان سا زادیب کے خیالات سے مستفید ہوئے۔ اس کی ادبی تھیوری کی علمی و ادبی حلقوں میں وسیع پیمانے پر پذیرائی ہوئی اور دنیا کی متعدد جامعات نے اسے اعزازی ڈگریوں سے نوازا۔
 

Daily Program

Livesteam thumbnail