نکولس آگسٹ اوٹو (جرمن موجد)
نکولس آگسٹ اوٹو جرمن موجد تھا‘جس نے 1876ء میں داخلی افروختگی والا چار سٹروک کا انجن بنایا۔یہ ان کروڑہا انجنوں کا ابتدائی نمونہ تھا‘جو آج تک تیار ہورہے ہیں۔ داخلی افروختگی والا انجن ایک ہمہ صفت آلہ ہے۔یہ کشتیوں اور موٹر سائیکلوں میں استعمال ہوتا ہے۔اس کے صنعتی استعمالات بہت زیادہ ہیں۔جبکہ ہوائی جہاز کی ایجاد کے لیے اس کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔ 1939ء میں پہلے”جیٹ“ہوائی جہاز کی اڑان سے قبل تمام ہوائی جہاز داخلی افرو ختگی والے انجنوں کی مدد سے اوٹو کے اصولوں کے مطابق ہی چل رہے تھے۔بہرکیف داخلی والے انجن کا سب سے اہم استعمال موٹر کاروں میں ہوا۔اوٹو کی کامیاب کاوش سے پہلے موٹر کار بنانے کی متعدد کاوشیں ہو چکی تھیں۔ ان میں سے کوئی نمونہ عملی طور پر کامیاب نہ ہو سکا۔تاہم اوٹو کے چار سٹروک والے انجن کی تیاری کے بعد قریب پندرہ برسوں میں دو مختلف موجدوں کا رل بینز اور گوٹلیب ڈیملرنے عملی اور کاروباری طور پر کامیاب کاریں بنالی تھیں۔متعدد دیگر انواع کے انجن بھی ان کاروں میں استعمال ہوئے ہیں۔گزشتہ صدی میں جو لاکھوں کاریں تیار ہوئی ہیں ان میں سے ننانوے فیصد کاروں میں یہی داخلی افرو ختگی والا چار سٹروک کا انجن استعما ل ہوا ہے۔(ڈیزل انجن‘داخلی افروختگی والے انجن کی ایک بہتر قسم ہے‘جو ٹرکوں‘بسوں اور بحری جہازوں میں استعمال ہوتا ہے‘یہ اوٹو کے چار سٹروک والے چکر کی بنیاد پر ہی کام کرتا ہے۔
نکولس آگسٹ اوٹو جرمنی کے ایک قصبہ ہولز ہاسن میں 1832ء میں پیدا ہو ا۔اس کا باپ اس کے بچپن میں ہی فوت ہو گیا۔اوٹو ایک ہو نہار طالب علم تھا۔تاہم سولہ برس کی عمر میں اس نے سکول کو خیر باد کہہ کر کام تلاش کیا اور کاروبار کا تجربہ حاصل کیا۔ کچھ عرصہ اس نے ایک چھوٹے قصبہ میں ایک پنساری کی دکان پر بھی کام کیا۔پھر وہ فرینکفرٹ میں کلرک بھرتی ہوا۔بعدازاں وہ ایک سفر بردار تاجربن گیا۔
1860ء میں اوٹو نے ایٹی نی لینوئر(1900ء1822-ء)کا ایجاد کردہ گیس انجن کے بارے میں سنا۔یہ پہلا متحرک داخلی افروختگی والا انجن تھا۔اوٹو کو محسوس ہوا کہ اگر لینوئر کے انجن میں سیال تیل استعمال کیا جائے تو اس کے استعمالات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ نیز اس میں گیس کے نکاس کا خانہ بھی نہیں رکھنا پڑے گا۔اوٹو نے ایک کاربوریٹر تیار کیا۔تاہم اسے اس ایجاد کے حقوق کی سند نہیں دی گئی۔کیونکہ ایسے ہی آلات پہلے بھی زیر استعمال تھے۔ وہ مایوس نہ ہوا۔اس نے لینوئر کے انجن کو بہتر بنانے کی طرف توجہ صرف کی۔1861ء کے اوائل میں اسے ایک نئی طرح کے انجن کا خیال سوجھا۔جو چار سٹروک کے تسلسل کے ساتھ چلے (یہ لینو ئر کے انجن سے مختلف تھا جو دو سٹروک پر چلتا تھا)۔ جنوری 1862ء میں اوٹو نے چار سٹروک کے انجن کا ایک نمونہ بنایا۔تاہم وہ مشکلات کا شکار ہوا۔خاص طور پر آتش گیری کے مسئلے میں جو اس نئے انجن کو عملی طور پر قابل استعمال بنانے کی راہ میں حائل تھا۔اس نے اسے ایک طرف ڈال دیا۔اس کی بجائے اس نے ایک ہوائی دباؤ والا دو سٹروک انجن بنایا جو گیس کی طاقت سے چلتاتھا۔1863ء میں اس نے اس کی سند حقوق حاصل کی‘مالی معاونت کے لیے جلد ہی اسے ایوگن لینگن کی شراکت حاصل ہوئی۔ انہوں نے ایک چھوٹا کا رخانہ بنایا اور انجن کو بہتر بناتے رہے۔1867ء میں ان کے دو سٹروک انجن نے”پیرس ورلڈ فیئر“میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔اس کے بعد اس کی فروخت انتہا پر جا پہنچی۔1872ء میں انہوں نے ذہین انجینئر کو ٹلب ڈیملر کو اپنے کار خانے کی انتظامیہ میں شامل کیا تاکہ وہ انجن کی تیاری میں ان کی معاونت کرے۔ اگر چہ دوسٹروک انجن سے منافع بے پایاں وصول ہوا لیکن اوٹو اپنے ذہن سے چار سٹروک انجن کا خیال نہیں نکال سکا جو اصل میں وہ بنانا چاہتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ ایک چار سٹروک کا انجن جو تیل اور ہوا کے آمیزے کو آتش گیری عمل سے پہلے بھینچ دیتا تھا‘لینوئر کے دو سٹروک انجن میں کسی بھی بہتر ترمیم کی نسبت زیادہ موثر ثابت ہو سکتا تھا۔1876ء کے اوائل میں اوٹو نے علی الاخر آتش گیری کا ایک بہتر نظام تیار کیا۔اس سے وہ عملی طور پر کامیاب چار سٹروک انجن بنانے کا اہل ہوا۔ایسا پہلا نمونہ مئی1876ء میں تیار ہوا۔
اگلے برس اس نے ایجاد کی سند حقوق حاصل کر لی۔چار سٹروک انجن کی اعلیٰ ترین استعداد اور کارکردگی واضح تھی۔اسے فوراً تجارتی سطح پر کامیابی حاصل ہوئی۔ صرف اگلے دس برسوں میں ایسے تیس ہزار انجن فروخت ہوئے۔جبکہ لینوئر کے انجن کے تمام نمونے متروک ہو گئے۔ گاڑیوں کی تاریخ میں ایک اور معروف ہستی کا ذکر ضروری ہے۔ یہ امریکی موجد اور صنعت کا ر ہنری فورڈ تھا‘جس نے پہلی بار کم نرخوں پر بڑ ی تعداد میں موٹر کاریں تیارکی۔ داخلی افروختگی والے انجن اور موٹر گاڑی بے پایاں اہمیت کی حامل ایجادات تھیں۔اگر اس تمام ترقی کا سہرا کسی ایک شخص کے سر باندھا جا سکے تو اس کا شمار یہاں سر فہرست ہونا چاہئے۔تاہم اس تمام پیش رفت کے اعزاز کو ان چند افراد میں تقسیم کر دینا چاہے۔
لینو ئر‘اوٹو‘ڈیملر‘بینز اور فورڈ۔ان تمام میں اوٹو کا حصہ البتہ سب سے زیادہ ہے۔لینو ئر کا انجن نہ طاقت اور نہ استعداد کار میں ہی موٹر گاڑیوں کے لیے مناسب تھا۔اوٹو کے انجن نے ہر کمی پوری کی۔1876ء سے پہلے جب اوٹو نے اپنا انجن ایجاد کیا‘ایک قابل عمل موٹر گاڑی کی تیاری نا ممکن تھی۔لیکن 1876ء کے بعد یہ ناگزیز ہو گئی۔نکولس آگسٹ اوٹو بجا طور پر دنیا کے معماروں میں سے ایک ہے۔