نوم چومسکی، علم و ادب کا روشن ستارہ
نوم چومسکی نے سات دسمبر 1928کو فلاڈلفیاکے ایک متوسط یہودی گھرانے میں جنم لیا۔ اس خاندان کے افرا دعلم و ادب میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔اس کا والد ولیم (William) جنوبی امریکہ میں میر لوس پارک (Melrose Park, Pennsylvania)میں واقع یہودی اساتذہ کی تربیت کے گریٹز کالج (Gratz College) میں عبرانی کا پروفیسر تھا۔ اس کا والداور والدہ ایلسی چومسکی (Elsie Chomsky)روسی یہودی مہاجر تھے۔زمانہ طالب علمی ہی سے اس نو خیز طالب علم کو معاشرتی زندگی میں بڑھتی ہوئی طوائف الملوکی کے مسموم اثرات کے بارے میں تشویش تھی۔ دس برس کی عمر میں اس نے یورپ میں بڑھتی ہوئی فسطائیت، ریاستی جبر اور عصبیت کے خلاف ایک مضمون لکھا۔ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوم چومسکی نے سولہ سال کی عمر میں امریکہ کی ممتاز جامعہ یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں داخلہ لیا۔ یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں حصول تعلیم کے عرصے میں نوم چومسکی کو زیلنگ ایس ہیرس (Zellig S. Harris’)جیسے ممتاز ماہر لسانیات کی رہنمائی میسر آئی۔ جامعہ میں دوران تعلیم نوم چومسکی نے لسانیات،ریاضی اور فلسفہ میں اختصاصی مہارت حاصل کی اور اپنی صلا حیتوں کا لوہا منوایا اور امتیازی نمبر حاصل کر کے کا میابی حاصل کی۔ ا س جامعہ کے اساتذہ بالخصوص زیلنگ ایس ہیرس نے اپنے نوخیز شاگرد نوم چومسکی کی صلاحیتوں کو جس صدقِ دل سے صیقل کیا اس کے اعجاز سے نوم چومسکی کا لسانیات میں استغراق اوج کمال تک پہنچ گیا۔ اس جامعہ سے نوم چومسکی نے سال 1949میں بی۔اے کاامتحان امتیازی نمبر حاصل کر کے پاس کیا۔سال 1951میں ایم۔اے کیا۔ایم۔اے میں نوم چومسکی نے ''The Morphophonemics of Modern Hebrew.'' کے موضوع پر مقالہ تحریر کیا۔ سال 1955میں پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔پی ایچ۔ڈی کے لیے اس نے ہئیتی تبدیلی کے تجزیاتی مطالعہ پر (Transformational Analysis) کے موضوع پر مقالہ لکھا۔زیلنگ ایس ہیرس نے ہارورڈ یونیورسٹی کے جن نامور اساتذہ سے نوم چومسکی کو متعار ف کرایا ان میں ریاضی دان ناتھن فائن(Nathan Fine)، فلسفی ہینری نیلسن گڈ مین(Henry Nelson Goodman) اور فلسفی ڈبلیو۔ وی۔کوئن(Willard Van Orman Quine) کے نام قابل ذکر ہیں۔
سال 1949میں نوم چومسکی نے اپنے بچپن کی رفیق کار،ساتھی اور ذہین ہم جماعت ایجوکیشن سپیشلسٹ کیرل ڈورس شاٹز((Carol Doris Schatz سے شادی کر لی۔کیرل ڈورس شاٹز کے ساتھیہ شادی بہت کامیاب رہی،ان کے تین بچے پیدا ہوئے۔دونوں ایک دوسرے کے ہم خیال اور ہم مسلک تھے۔بچوں کی پیدائش پر والدین بہت خوش تھے۔بچوں کی تعلیم و تربیت پر نوم چومسکی اور اس کی اہلیہ نے بھرپور توجہ دی۔ ان کے بچے اویوا(Aviva,B:1957)،ڈیانی(Diane,B:1960) اور ہیری (Herry,B:1967) کامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شادی کا یہ بندھن انسٹھ سال تک نہایت خوش اسلوبی سے بر قرار رہا۔ وفا شعار اہلیہ کیرل ڈورس شاٹز(1949-2008)کی کینسر کے عارضے کے باعث وفات کے بعد حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ شامِ الم ڈھلتے ہی درد و کرب کی ہوا کے تند و تیز بگولوں کی زد میں آکر دِل کی انجمن کو سدا منور رکھنے والی حوصلے،اُمید اور صبر کی مشعل ٹمٹمانے لگتی۔ جب دِل کی ویرانی نے اذیت ناک صورت اختیار کر لی تو نوم چومسکی نے ہجوم یاس و تنہائی کے ہراساں اور نا خوشگوار شب و روز کی مسموم فضا سے نکلنے کی خاطر ہجوم غم میں دِل کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا اورچھیاسی سال کی عمر میں چالیس سالہ ولیریا وسرمین (Valeria Wasserman)سے سال 2014میں دوسری شادی کر لی۔
جب انسان کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جائے تو غموں کے ازدحام میں جی کا گھبر ا جانا ایک فطری بات ہے۔
نوم چومسکی نے فکر و خیال،تخلیقِ ادب اور تنقید و تحقیق کے سب معائر اور نمونے بدل ڈالے۔جدید لسانیات میں فکر انگیزخیالات اور متنوع تجربات و اختراعات کی وجہ سے یورپ میں اس رجحان ساز ادیب کو بابائے جدید لسانیات قرار دیا جاتا ہے۔معاشرتی زندگی میں پس ماندہ،مفلوک الحال اور غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی کے دِن پورے کرنے والی سسکتی ہوئی انسانیت کے ساتھ اس نے جو عہدِ وفااستوار کیاہمیشہ اسی کو علاج گردشِ لیل و نہار سمجھا۔اسے اس بات کا ہمیشہ قلق رہا ہے کہ محرومیاں،مجبوریاں اور نا انصافیاں انسان کو مزاحمت اور بغاوت پر مائل کرتی ہیں۔ کسی کوان اسباب و عوامل پر نظر ڈالنے کی فرصت ہی نہیں کہ آخر لوگ معاشرتی زندگی میں خوف و دہشت پھیلانے کے جان لیوا منصوبے کیوں بناتے ہیں۔اس کا خیال ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہاں کامظلوم طبقہ اپنے حقوق کے حصول کی خاطر جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے فسطائی جبر کے سامنے سینہ سپر ہو جاتا ہے۔