جوہن گٹن برگ (چھاپہ خانہ کا موجد)
جوہن گٹن برگ کو چھاپہ خانہ کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔اصل میں اس نے یہ کیا کہ پہلے سے زیر استعمال متحرک چھاپے کو اس انداز میں بہتر بنایا کہ اس سے بڑی تعداد میں اور زیادہ درستی کے ساتھ طباعت کا عمل ممکن ہوا۔ کوئی ایجاد مکمل طور پر کسی ایک ہی فرد کے ذہن سے برآمد نہیں ہوتی‘ظاہر ہے کہ چھاپہ خانہ بھی ایسی ہی ایک ایجاد ہے۔سانچے کی چھپائی کے تحت بننے والی مہریں اور مہردار انگوٹھیاں ازمنہ قدیم سے زیر استعمال تھیں۔ گٹن برگ سے کئی صدیاں پہلے چین میں سانچے کی چھپائی کا طریقہ رائج تھا جبکہ868ء کے قریب وہاں طبع ہونے والی ایک کتاب بھی دریافت ہوئی ہے۔مغرب میں بھی گٹن برگ سے پہلے اس تمام عمل سے لوگ آشنا تھے۔سانچے کی چھپائی سے کسی ایک کتاب کے بہت سے نسخے تیار کرنا ممکن تھا۔ اس طریقہ کار میں البتہ ایک قباحت تھی کہ ہر نئی کتاب کے لیے ہر بار لکڑی کے ٹکڑوں یا تختوں کا ایک مکمل نیا سانچہ تیار کرنا پڑتا تھا۔ بہت زیادہ تعداد میں کتابیں چھاپنے کے لیے ہر طریقہ کار ناقابل عمل تھا۔ عموماً خیال کیا جاتا ہے‘ کہ گٹن برگ کی اہم ایجاد متحرک سانچوں کا چھاپہ خانہ ہے‘جبکہ متحرک چھاپہ خانہ چین میں گیارہویں صدی عیسوی کے وسط میں پی شیگ نامی ایک شخص نے ایجاد کیا تھا۔اس کے حروف مٹی سے بنائے جاتے تھے جو پائیدار نہیں ہوتے تھے‘تاہم چین اور کوریا کے افراد نے اسی میں بہتری کی کئی ایک صورتیں پیدا کیں۔ گٹن برگ سے پہلے کوریا میں دھاتی حروف استعمال ہونے لگے تھے۔پندرہویں صدی کے اوائل میں ہی کوریا کی حکومت چھپائی کے حروف کی تیاری کے لیے ایک بڑی صنعت کی داغ بیل ڈال چکی تھی۔
جدید طباعتی نظام کے چار بنیادی عناصر ہیں۔اول متحرک حروف کا طریقہ کار جس میں حروف کو جوڑنے اور ترتیب کا عمل شامل ہے۔دوم طباعتی مشین۔ سوم عمدہ طباعتی روشنائی اور چہارم ایک عمدہ مواد یعنی کا غذ جس پر چھپائی ہوتی ہے۔خود تسائی لون سے کئی سال پہلے چین میں کاغذ ایجاد ہو چکا تھا اور گٹن برگ کے
دور سے پہلے ہی مغرب میں اس کا عام استعمال شروع ہو گیا تھا۔یہ طباعتی طریقہ کار کاواحد عنصر تھا‘جو تیار حالت میں گٹن برگ کو دستیاب ہوا۔ باقی تین اجزاء پر بھی بہر طور کسی نہ کسی حد تک کام ہو چکا تھا۔
گٹن برگ نے اس میں متنوع انداز کی بہتریاں پیدا کیں۔مثال کے طور پر اس نے حروف کے لیے ایک موزوں کھوٹ ملی دھات تیار کی۔حروف کی ٹکڑیوں کو صحیح طور پر باہم مربوط کرنے کے لیے ایک سانچہ‘چکناہٹ والی طباعتی روشنائی اور طباعت کے لیے موزوں ”کل“بھی تیار کی۔ تاہم گٹن برگ کا من حیث المجموع کام اس کی انفرادی اضافوں سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ وہ اس لیے زیادہ اہم ہے کیونکہ اس نے طباعت کے تمام اجزاء کو موثر پیدا واری نظام میں یکجا کردیا۔پہلے سے موجود دیگر تمام ایجادات کے برعکس طباعت میں بڑی مقدار میں پیدا وار کی گنجائش موجود تھی۔ایک رائفل‘تیر اور کمان کی نسبت کہیں زیادہ موثر ہتھیار ہے۔ اسی طور ایک طبع شدہ کتاب ایک ہاتھ سے لکھی ہوئی کتاب سے کم وقیع نہیں ہے‘طباعت کا اصل فائدہ یہی پیدا وار کے حجم میں اضافے کی صورت میں تھا۔ گٹن برگ کی ایجاد کسی پرانے طریقہ کار کا احیاء نہیں تھی نہ ہی یہ اضافوں کے ایک سلسلہ کی صورت میں تھی بلکہ یہ ایک مکمل پیدا واری عمل تھا۔ گٹن برگ کی سوانح حیات کے بارے میں ہماری معلومات نہایت کم ہیں۔ہم اتنا جانتے ہیں کہ وہ 1400ء کے قریب جرمنی میں ”مینز“شہر میں پیدا ہوا تھا۔طباعتی فن میں اس نے اسی صدی کے قریب وسط میں یہ اضافے کیے‘جبکہ اس کا معروف کارنامہ ”گٹن برگ انجیل“تھی جو 1454ء کے لگ بھگ مینز میں ہی طبع کی گئی۔ (تجسّس کی بات یہ ہے‘کہ گٹن برگ کا نام اس کی کسی کتاب پرورج نہیں تھا‘نہ ہی اس کی انجیل پر‘جبکہ اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ یہ انجیل اسی کی بنائی ہوئی مشین پر طبع ہوئی تھی۔)یوں لگتا ہے کہ وہ ایک اچھا کار وباری نہیں تھا۔وہ اپنی ایجاد سے کبھی زیادہ دولت اکٹھی نہ کر سکا۔وہ متعدد مقدمات میں گھر گیا۔جن میں سے ایک مقدمہ اس کی اپنی مشین سے اپنے شراکت کا رجو ہن فوسٹ کے حق میں دست بردار ہونے کی صورت میں منتج ہوا۔
وہ 1468ء میں مینز میں فوت ہوا۔
تاریخ عالم پر گٹن برگ کے اثرات کا ایک خاکہ ہم بعد کے برسوں میں چین اور یورپ میں ہونے والی ترقی کے باہمی تقابل سے حاصل کر سکتے ہیں۔گٹن برگ کی پیدائش کے وقت دونوں علاقے تیکنیکی طور پر برابر ترقی یافتہ تھے۔تاہم جدید طباعتی نظام کی ایجاد کے بعد یورپ کی ترقی سریع الرفتار ہو گئی۔جبکہ چین میں‘جہاں سانچے کی چھپائی کا طریقہ کار ہی برتا جاتا رہا‘ترقی کی رفتار نسبتاً سست رہی‘یہ کہنا شاید ایک مبالغہ ہو کہ طباعتی ترقی ہی وہ اصل محرک تھا جس نے یہ امتیاز پیدا کیا‘یہ ایک اہم سبب تھا۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ہماری فہرست میں موجود صرف تین افراد ہی گٹن برگ سے پہلے کی پانچ صد یوں سے متعلق ہیں جبکہ سڑسٹھ افراد اس کی موت کے بعد کی پانچ صدیوں میں پیدا ہوئے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جدید زمانہ کی انقلابی ترقی کی جاری کرنے میں گٹن برگ کی ایجاد نے ایک اہم عنصر کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا۔
یہ با ت اظہر من الشمس ہے کہ اگر الیگز ینڈر گراہم بیل موجود نہ بھی ہوتا‘ٹیلیفون بہر کیف پھر بھی ایجاد ہوجاتا۔
بلکہ شاید عین اسی دور میں ایجاد ہوتا‘یہی بات متعدد دیگر ایجادات کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔گٹن برگ کے بغیر جدید طباعتی نظام کی ایجاد اغلباً نسلوں تک موخررہتی۔آئندہ تاریخ پر طباعتی نظام کے بھر پور اثرات کے تناظر میں گٹن برگ کو اس فہرست میں نمایاں مقام دینا بلا شبہ بجا ہے۔