بانو قدسیہ:کس سمت لے گئیں مجھے اس دِل کی دھڑکنیں
28 نومبر 1928 کو فیروز پور (بھارت) سے علم و ادب کی روشنی کے فقید المثال سفر کا آغاز کرنے والی یہ عظیم محب وطن پاکستانی ادیبہ چار فروری 2016کی شام لاہور میں ردائے خاک اوڑھ کر ابدی نیند سو گئی۔ حریتِ ضمیر سے جینے کی روش اپنانے والی اس فرض شناس،باوقار اور با ضمیر ادیبہ نے اپنی تخلیقی کامرانیوں سے عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔
بانو قدسیہ نے اُردو ادب میں اخلاقیات،تانیثیت،روحانیات اور اقدارِ عالیہ کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا۔ بانو قدسیہ کی تخلیقی تحریروں میں نسائی جذبات اورزندگی کی درخشاں اقدار و روایات کو تصوف سے ہم آہنگ کر نے کی جوسعی موجود ہے وہ اسلوب کی ندرت اور انفرادیت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ بانو قدسیہ نے تانیثیت کو مردوں سے تصادم کی راہ پر گامزن ہونے سے روکا اور مر د و خواتین کو باہمی احترام اور مساوی بنیادوں پر مصروف عمل رہنے کی راہ دکھائی۔
بانو قدسیہ کا تعلق ایک ممتاز علمی وا دبی خاندان سے تھاجس نے تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا۔ان کے والد بد ر الزماں نے زرعی سائنس میں گریجویشن کی اور پبلک سیکٹر کے ایک بڑے زرعی فارم کے مہتمم کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ جب بانو قدسیہ ساڑھے تین برس کی تھیں تو ان کے والد عالم شباب میں اکتیس سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ تقدیر کی تو پہچان ہی یہی ہے کہ وہ ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اڑا دیتی ہے۔بانو قدسیہ کی والدہ ذاکرہ بیگم نے ستائیس سال کی عمر میں چل بسی۔ اس خاتون نے تقدیر کے ستم سہہ کر صبر و تحمل سے اپنے دو کم سِن بچوں کی پرورش پراپنی توجہ مرکوز کر دی۔ایک صابر و شاکر ماں کی حیثیت سے ذاکرہ بیگم نے اپنے بیٹے پرویز اور بیٹی بانو قدسیہ سے اپنا مستقبل اور بقیہ زندگی وابستہ کر دی اور اپنے ارمانوں کو اپنے دِل میں ہمیشہ کے لیے سموئے صبر و استقامت کی تصویر بن گئیں۔ اپنے ملبوسِ حیات سے ایک بڑا ٹکڑا قطع کر کے اپنے جگر گوشوں کے چاک دامن کو رفو کرنے کا نام ہی مامتا ہے۔ بانو قدسیہ کے بھائی پرویز نے فن ِ مصوری میں نام پیدا کیا جس کا چند برس قبل انتقال ہو گیاتھا۔
بانو قدسیہ نے ابتدائی تعلیم دھرم شالہ سکول فیروز پور(بھارت) سے حاصل کی۔ بانو قدسیہ نے کم عمری ہی میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔جب وہ پانچویں جماعت میں زیر تعلیم تھیں،اس وقت سے ان کی کہانیاں بہت مقبول ہو گئی تھیں۔قیام پاکستان کے بعد بانو قدسیہ کے خاندان نے ارضِ پاکستان منتقل ہو نے کا فیصلہ کیا اور لاہور میں قیام کیا۔ بانو قدسیہ نے اسلامیہ کالج،لاہور سے انٹر میڈیٹ کیا اور سال 1949میں کینیرڈ کالج لاہور سے بی۔اے کیا۔ تخلیقِ ادب سے انھیں گہری دلچسپی تھی، بانو قدسیہ کا پہلا افسانہ ”واماندگی شوق“ زمانہ طالب علمی ہی میں سال 1950میں لاہور سے شائع ہونے والے ممتاز ادبی مجلہ ”ادب لطیف“میں شائع ہوا۔سال 1951میں بانو قدسیہ نے گورنمنٹ کالج،لاہور میں ایم۔اے اردو میں داخلہ لیا اور یہیں سے ایم۔اے اردو کیا۔ممتاز ادیب اشفاق احمد اسی ادارے میں ان کے ہم جماعت تھے۔سال 1956میں بانو قدسیہ نے اشفاق احمد سے شادی کر لی۔ اُردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں گہری دلچسپی لینے والے اس نو بیاہتا جوڑے نے گیسوئے اُردو کے نکھارنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔نمود و نمائش اور شہرت و ناموری کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے اس با صلاحیت ادبی جوڑے نے سدا عجز و انکسار کو زادِ راہ بنایا۔ دونوں کی سوچ یکساں تھی۔ احباب کے ساتھ ان کے پُر خلوص،بے لوث، مثبت اورتعمیری سلوک کا ایک عالم معترف تھا جس کے جواب میں انھیں بھی اسی نوعیت کے سلوک کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ شادی کے بعددونوں نے مِل کر ادبی مجلہ”داستان گو“کی اشاعت کا آغاز کیا جو چار سال تک باقا عدگی سے شائع ہوتا رہا مگر بعض نا گزیر مسائل کے باعث کچھ عرصہ بعد یہ مجلہ اپنی اشاعت کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔ اشفاق احمد کے ساتھ کامیاب شادی کے ساتھ ہی
بانو قدسیہ کی خوابیدہ ادبی صلا حیتوں کو صیقل کرنے اور ان کی تخلیقی فعالیتوں کو صحیح سمت عطا کر کے ان کی عظیم شخصیت کی تکمیل میں مدد ملی علم و ادب کی دنیا کا یہ مثالی جوڑا ساٹھ سال تک پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہااور پُوری دنیا میں جدت فکر کی آئینہ دار اپنی فقید المثال تخلیقی کامرانیوں کی دھاک بٹھا دی۔ با نو قدسیہ کے تین بیٹے ہیں جو مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں اور ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں۔بانو قدسیہ کی علمی،ادبی،قومی اور ملی خدمات کادنیا بھر میں اعتراف کیا گیا۔دنیا بھر کے ادیب ان کے معتقد تھے اور انھیں ”بانو آپا“کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔