انگریز طبیب ایڈورڈجینر(چیچک ویکسین کا بانی)
انگریز طبیب ایڈورڈجینر ہی وہ شخص تھا‘جس نے چیچک جیسی ہولناک بیماری کے خلاف ویکسین تیار کی اسی طبیب کی بدولت چیچک کی بیماری دنیا سے ختم ہو چکی ہے۔یہ اس قدرمہلک بیماری تھی کہ اس کے مریض مر جاتے تھے اور جو بچ جاتے اْن کا چہرہ چیچک کے دانوں سے بگڑ جاتا۔چیچک کا مرض صرف یورپ تک ہی محدود نہیں تھا‘بلکہ اس نے شمالی امریکہ‘ہندوستان‘چین اور دنیا کے متعدد ممالک میں بھی تباہی پھیلائی۔ہر جگہ بچے اس کا مرغوب شکار رہے۔سالہا سال سے چیچک کے سدباب کے لیے حفاظتی اقدامات وضع کرنے کی کاوشیں جاری تھیں۔بہت پہلے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ جو شخص ایک بار چیچک کی بیماری کی زد میں آتا ہے،اس کے بعد تاحیات وہ اس میں مبتلا نہیں ہوتا۔مشرق میں یہ روایت پیدا ہوئی۔صحت مند لوگوں کو ان لوگوں کے خون وغیرہ کا ٹیکہ لگا یا جاتا جنہیں یہ بیماری معمولی حد تک ہوتی۔یہ اس موقع پر کیا جاتا کہ صحت مند آدمی اس طور خود بھی معمولی درجہ کے مرض میں مبتلا ہو گا‘اور جب ایک باروہ صحت مند ہو گا تو پھر ہمیشہ اس سے غیر متاثر رہے گا۔
اس روایت کو انگلستان میں اٹھارہویں صدی میں لیڈی میری وورٹلے مونٹا گونے متعارف کروایا۔ایڈورڈ کی پیدائش سے کئی سال پہلے یہ روایت عام ہو چکی تھی۔اْنھیں خود جب وہ آٹھ سال کے تھے تو اس طریقے سے ٹیکہ لگا۔لیکن اس حفاظتی تدبیر میں بڑی قباحت تھی۔اس طریقے سے ان صحت مند لوگوں پر بیماری کا معمولی حملہ نہ ہوتا بلکہ شدید مہلک حملہ ہوتا جس سے ان کا سارا جسم دانوں سے بھرجاتا۔حقیقت یہ تھی کہ ٹیکہ لگائے جانے والوں میں دو فیصد لوگ چیچک کے شدید حملے کا شکار ہوتے۔ظاہر ہے کہ ایک بہتر طریقہ کار کی اشد ضرورت تھی۔
1949ء میں ایڈورڈ انگلستان میں گلو سسٹر شائر کے قصبہ ہر کلے میں پیدا ہوئے۔بارہ برس کی عمر میں انہوں ایک سر جن کے ہاں ملازمت کی۔بعدازاں علم تشریح الابدان کا مطالعہ کیا اور ایک ہسپتال میں کام کرنے لگے۔
1792ء میں انھیں سینٹ اینڈ یوزیونیورسٹی سے طب کی ڈگری ملی۔40کی دہائی کے وسط میں وہ گلو سسٹر شائر میں ایک معالج اور سرجن کے طور پر کامیاب تھے۔
ایڈورڈ اس عوامی عقیدے سے آگاہ تھا جو وہاں کے گوالوں اور کسانوں میں عام تھا کہ اگر کسی شخص کو گوتھن سیتلا (Cowpox)ہوجائے جو مویشیوں کی بیماری تھی اور انسانوں میں بھی منتقل ہو جاتی تھی‘تو وہ شخص تا عمر چیچک سے محفوظ رہتا ہے۔ایڈورڈ نے محسوس کیا کہ اگر کسانوں کا یہ عقیدہ درست ہے تو گوتھن سیتلا کے مواد کو چیچک کے خلاف انسان میں داخل کرنا ایک زیادہ محفوظ تدبیر ہو گی۔اس نے اس معاملے پر تحقیق کی۔1796ء تک وہ جان گیا کہ یہ عوامی عقیدہ درست تھا۔اس لئے انہوں نے اپنے طریقہ کار کے براہ راست اطلاق کا فیصلہ کیا۔1796ء میں ایڈورڈ نے ایک گوالے کے ہاتھ پر نکلے گوتھن سیتلا(Cowpox)کے دانے سے مواد لے کر ایک آٹھ سالہ بچے کو ٹیکہ لگایا۔جیسا کہ متوقع تھا‘لڑکے میں گوتھن سیتلا کے دانے ظاہر ہوئے لیکن پھرجلد ہی وہ صحت یاب ہو گیا۔کئی ہفتوں کے بعد ایڈورڈنے اْسی بچے کو چیچک کے مواد کا ٹیکہ لگا یا۔تا ہم بچے میں بیماری کے کوئی آثار پیدا نہیں ہوئے۔مزید کچھ تحقیق کے بعد ایڈورڈنے اپنے نتائج کو ایک مختصر کتاب ”چیچک ویکسین کے اسباب اور اثرات کے متعلق تحقیق“میں رقم کیا جو 1788ء میں اس نے خود ہی چھپوائی۔ اسی کتاب کے باعث ویکسین کو جلد ہی عام استعمال کیاجانے لگا۔بعد ازاں ایڈورڈ نے
ویکسین سے متعلق پانچ مزید مقالے تحریر کیے۔سالہا سال تک اس نے اپنا بیشتر وقت اپنے طریقہ کار کے علم کی تشہیر اور اسے اپنانے کے عمل کو بہتر بنانے پر صرف کیا۔
انگلستان میں ویکسین کا استعمال شتابی سے عام ہوا۔جلد ہی برطانوی بری اور بحری فوج میں بھی اس کے استعمال کو ضروری قرار دے دیا گیا۔
ایڈورڈ نے اپنے طریقے کار کے عام استعمال کی اجازت دے دی اور اس سے نفع کمانے کا خیال دل میں نہ لایا۔تا ہم 1802ء میں برطانوی مجلس قانون ساز نے شکر گزاری کے طور پر اسے دس ہزار پاؤنڈ انعام دیا۔چند سال بعد مجلس نے اسے مزید بیس ہزار پاؤنڈ دئیے۔
اسے عالمگیر شہرت ملی‘اور متعدد اعزازات اور تمغے دیے گئے۔ایڈورڈ تین بچوں کا باپ تھا۔وہ تہتر برس کی عمر میں 1823ء میں اپنے آبائی قصبہ بر کلے میں ابدی نیند سو گئے۔
اگر چہ ایڈورڈ ایک حیران کن حقیقی سائنس دان نہیں تھا لیکن انسانیت کو اپنے کسی فعل سے اتنا فائدہ کم ہی لوگوں نے پہنچایاہو گا۔اس نے اپنی تحقیقات‘تجربات اور تحریروں کے ذریعے ایک عوامی عقیدے کو باوقار حیثیت دی جس سے ان گنت لوگوں نے استفادہ کیا۔