انسانیت کیا ہے؟
دردِدل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھےکرو بیاں
ایک ایسا جزبہ جو انسان کوانسان سے منسلک رکھتا ہےاور اگر یہ احساس نا پید ہو جاۓ تو وہ معاشرہ قوم یا سلطنت تباہی اور برباری کی نظر ہو جاتی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ایک خوشحال اور صحت مند معاشرے کی تکمیل اسی صورت میں ممکن ہے جب خود غرضی کی بجا ۓ مثبت قومیت کو پروان چڑھایا جاۓ۔رنگ,نسل،ذات پات،قومیت،مزہب کی تفر یق کے بغیر ایک دوسرے کے کام آنا ہی انسانیت ہے اور اللہ تعالی ایسے لوگوں کو ہی پسند کرتا ہے۔ انسان ہونا ہمارا انتخاب نہیں انسانی شکل و صورت کے ساتھ پیدا ہونا ہمارا کمال نہیں۔ہمارا کمال تو اس وقت ہے جب ہم اس انسانی شکل و صورت میں انسانیت کو بھی برقرار رکھیں۔ہمارے معاشرے میں انسان جس قدر بڑھتے جارہے ہیں انسانیت اتنی ہی کم ہوتی جارہی ہے۔ نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں اپنی تکلیف تو تکلیف لگتی ہے مگر دوسروں کی نہیں۔ہمیں ہروقت اپنی خوشی کی فکر ہوتی ہےاور بعض اوقات تو ہماری خوشیاں دوسروں کا آرام و سکون تباہ کر کے حاصل ہو تی ہیں مگر ہم اس بات میں بھی کب شرم محسوس کرتے ہیں۔دوسروں کی تکا لیف ہمارے لیے روزمرہ زندگی کے معمو لی واقعات ہوتے ہیں جو ہم ایک کان سےسن کے دوسرےسے نکال دیتے ہیں۔ لمہ فکریہ ہے کہ اکثر ہی ہماری نظروں کے سامنے ایسے کٸ واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جن سے ذمین توکانپ اٗٹھتی ہے مگر ضمیر نہیں کانپتے بحیثیت مسلمان ہمیں جو سبق زیارہ پڑھنےکی ضرورت ہےوہ انسانیت۔ایسی تعلیم کا کیا فاٸدہ جو بلندیوں تک تو پہنچا دےمگر انسانیت کے درجے سے گرا دے۔
اس کی ایک واضح مثال ہمیں نبی حصرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ملتی ہے کہ جب ایک کافر بڑھیا گھر کا تمام کوڑا اکٹھا کر کے اُس ہستی پر گرانے کے لۓ تیار کھڑی ہوتی تھی جن کے لے یہ دنیا سجاٸ گٸ۔مگر جب ایک دن وہاں سے گزرنے پر کوڑا نہ پھینکا گیا تو دروازے پر دستک دے کر پوچھا ”ماں جی کیا بات ہے؟“جواب میں پتا چلا کہ بڑھیا بیمار ہے۔تو اس ہستی نے گھر کی صفائی بھی کی اور راشن اور دواٸ بھی لا کر دی۔اور رہتی دنیا تک انسانیت کی ایسی مثال قاٸم کی جو ہما رے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اگر ہم بھی اپنے معا شرے کو جنت کا ٹکڑا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس جزبے کی آبیاری با کثرت کرنا ہوگی۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے
ہیں نمازیں سبھی میری پوری
بس فرضِ انسا نیت قضا ہوا ہے