اقلیدس (300قبل مسیح) ایک فعال استاد
اقلیدس سکندر یہ مصر میں 300قبل مسیح میں ایک فعال استاد تھا۔اس نے متعدد کتب تحریر کیں۔جن میں سے چند ایک ہی باقی بچی۔تاریخ میں اسے یہ قدرومنزلت‘اس کی عظیم کتاب”عناصر“(Elements)کی بدولت ملی۔
”عناصر“کی اہمیت ا س میں موجود نظریات کے باعث نہیں ہے۔اس کتاب میں موجود قریب سبھی نظریات اقلیدس سے پہلے بھی پیش کیے جاچکے تھے۔اقلیدس کا سب سے اہم کام تو مواد کی ترتیب بندی اور کتاب کی ساخت کی تشکیل سازی ہے۔پہلے تو مقولات اور مفروضات کے ایک موزوں مجموعہ کا انتخاب کرنے کا مرحلہ تھا۔(یہ ایک دشوار مرحلہ تھا‘چونکہ اس میں غیر معمولی قوت فیصلہ اور گہری بصیرت کی ضرورت تھی)۔
تب اس نے احتیاط کے ساتھ ان مفروضات کو ترتیب دیا‘تاکہ ہر ایک اپنے پیش رو سے منطقی طور پر جڑا ہوا معلوم ہو‘جہاں ضروری محسوس ہوا‘وہاں اپنی طرف سے اجزاء پیدا اور شواہد بھی فراہم کیے۔یہ امرقابل غور ہے کہ ”عناصر“جوبنیادی طور پر سادہ اور ٹھوس علم ہند سہ کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے‘الجبراور اعداد کے نظریہ کا بھی تفصیلی احاطہ کرتی ہے۔
کتاب”عناصر“گزشتہ دو ہزار برسوں سے زائد عرصہ سے نصابی کتاب کے طور پر پڑھائی جارہی ہے۔یہ بلامبالغہ ایک کامیاب ترین نصابی کتاب ہے۔اقلیدس نے ایسے شاندار انداز میں اسے لکھا کہ اس کی اشاعت کے بعد یہ علم مہندسہ کی تمام سابقہ نصابی کتب پر افضل ہوگئی‘اور انہیں جلد ہی فراموش کردیا گیا۔یہ یونانی میں لکھی گئی۔اب تک یہ متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔
پہلی باریہ 1482ء میں باقاعدہ طور پر طبع ہوئی‘یعنی جب گٹن برگ کو چھاپہ خانہ ایجاد کیے تیس برس ہی گزرے تھے‘تب سے اب تک قریب ہزاروں مختلف ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔منطقی دلیل کی ہیئت کے مطابق اس نے انسانی اذہان کی تربیت کی۔یہ ارسطو کے منطق پر مقالات سے کہیں زیادہ اثر انگیزثابت ہوئی۔یہ ایک مکمل استخراجی ڈھانچے کی ایک غیر معمولی مثال ہے۔
اپنی تخلیق کے لمحہ سے ہی یہ مفکرین کو متاثر کررہی ہے۔یہ کہنا بجا ہے کہ جدید سائنس کے فروغ میں اقلیدس کی کتاب نے ایک اہم کردار اداکیا۔سائنس متعدد درست مشاہدات اور پر اثر مفروضات کے ایک مجموعہ کے سواکچھ ہے۔ایک طرف تویہ جدید سائنس کی عظیم ترقی‘تجربیت اور آزمائش کے اشتراک سے پھوٹی۔دوسرے طرف یہ ایک محتاط تجزیہ اور استخراجی دلیل ہے۔
گزشتہ 150برسوں میں اقلیدسی نظام کے علاوہ متعدد ہندساتی نظام اختراع کیے گئے ہیں۔جب سے آئن سٹائن کااضافیت کاعمومی نظریہ قبول کیا گیاہے‘سائنس دانوں کو اس امر کا قوی احساس ہو ا کہ اقلیدس کاعلم ہندسہ ہمیشہ ایک حقیقی دنیا میں درست نتائج کا سبب نہیں بنتا۔روزن سیاہ(Black holeo)اور نیوٹران ستاروں کے قرب وجوار میں جہاں کشش ثقل کی قوت انتہائی شدید ہے‘اقلیدس کا علم ہندسہ‘صورت حال کا ایک درست خاکہ پیش نہیں کرپاتا۔
تاہم یہ مثالیں مخصوص ہیں‘بیشتر مثالوں میں اقلیدسی نظام ہندسہ حقیقت کازیادہ سے زیادہ درست خاکہ پیش کرنے میں کامیاب ہوتاہے۔انسانی علم میں موجود ہ ترقی کسی بھی صورت میں اقلیدس کی عقلی برتری کوکم نہیں کرتی۔نہ ہی ریاضیات کی ترقی میں اس کی تاریخی اہمیت میں کوئی تخفیف کرپاتی ہے‘اور نہ ہی اس منطقی ڈھانچے کی استواری میں حائل ہوتی ہے‘جو جدید سائنس کی بڑھوتری کے لیے ضروری ہے۔