ارفع کریم
کچھ لوگ دنیا میں ایسے بھی آتے ہیں جو اپنی ذہانت ٗ صلاحیت اور علمیت کی بدولت دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ دنیا سے رخصت بھی ہوجائیں تو ان کی یاد انسانی دلوں اور ذہنوں میں ہمیشہ تازہ رہتی ہے۔ ایسی ہی ایک بچی ''ارفع کریم'' پاکستانی قوم میں 2 فروری 1995 ء کو رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو شیخ زید ہسپتال لاہور میں امجد کریم رندھاوا کے گھر پیدا ہوئی۔ ارفع کریم پیدائش سے ہی دیگر تمام بچوں سے الگ تھلگ اور ذہانت میں مختلف اور برتر تھیں۔ یہ وہ واحد بچی ہے جو ایک سال کی عمر میں ہی زمین پر چلتے ہوئے پھلوں اور سبزیوں کے نام اپنی توتلی زبان سے پکارنے لگی تھی۔اس منفرد بچی کی ذہنی اور جسمانی تربیت میں جہاں اس کے والدین کا ہاتھ تھا وہاں ورثے میں ملنے والی دادا چوہدری عبدالکریم رندھاوا کی ذہانت بھی پیش پیش تھی۔ چوہدری عبدالکریم رندھاوا کا شمار تاندلیانوالہ شہر کے ذہین ترین ٗ صاحب علم اور باصلاحیت انسانوں میں ہوتا ہے۔اس کے باوجود کہ چوہدری عبدالکریم رندھاوا کسی سکول ٗ کالج یا یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے نہیں تھے پھر بھی وہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال ؒ کی کلیات اقبال ٗ حضرت بلھے شاہ ؒ ٗ سید وارث شاہ ؒ ٗ محمد بخش ؒ ٗ حضرت شاہ حسین ؒ ٗ حضرت بابافرید ؒ کے کلام کے حافظ تصور کئے جاتے تھے۔وہ اپنے علاقے میں (9 سروں والا) بڑے دماغ والے دانشور مشہور تھے۔وہ اکثر کہاکرتے تھے کہ علم کتابیں پڑھنے سے نہیں آتا بلکہ خود پر طاری کرنے سے آتا ہے۔جب نومولود بچی کو دادا کی آغوش میں دیا گیا تو انہوں نے اس بچی کا نام ''ارفع کریم'' رکھتے ہوئے دعائیہ انداز میں فرمایا کہ یہ بچی نہایت قابل اور ذہین ہوگی اور اس کی ذہانت کے چرچے دنیا بھر میں سنے جائیں گے۔
ارفع کریم کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ صرف تین سال کی عمر میں جبکہ بچہ صحیح طریقے سے چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں ہوتا اس نے قرآن پاک صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھ لیا تھا جبکہ تیسواں سپارہ اسے تقریبا زبانی یاد تھا۔جبکہ دنیاوی تعلیم کا آغاز صرف ایک سال بعد ہی شروع کردیا تھا۔ارفع کو ا? تعالی نے بلا کی ذہانت عطا فرمائی تھی وہ جس چیز یا تحریر کو ایک بار دیکھ لیتی اس کے دماغ میں وہ نقش ہوجاتی۔ سوا سال کی عمر میں نعت پڑھنے ٗ قومی ترانہ اور گیت گانے لگی تھی۔ ارفع کو تین سال کی عمر دادی نے چھ کلمے ٗ دعائے قنوت ٗ اور مکمل نماز بالکل صحیح تلفظ کے ساتھ زبانی یاد کرواچکی تھی۔
ارفع کریم نے او لیول (جسے میٹرک کے برابر تصور کیاجاتا ہے) میں دس مضامین میں 100 فیصد نمبر حاصل کرکے ایک ریکارڈ قائم کیاتھا۔وہ چھوٹی سی عمر میں ہی نہ صرف کلیات اقبال جیسی مشکل کتابیں آسانی سے پڑھ لیتی بلکہ علامہ اقبال کے شعروں کی بالکل صحیح تشریح کرلیتی۔ ادب کے ساتھ ساتھ انگلش زبان میں کمیپوٹرٹیکنالوجی کے ممتاز ماہرین اور پروفیسروں کی کتابیں اس کے مطالعے میں شامل تھیں۔ارفع کو ا? تعالی نے یہ اعزاز بخشا تھا کہ وہ جو کلام ایک بار سنتی وہ کلام اس کے دماغ میں ہمیشہ کے لیے نقش ہوجاتا۔ اس کے باوجود کہ اس نے موسیقی اور گائیگی میں کسی سے کوئی اصلاح نہیں لی تھی پھر بھی وہ استاد نصرت فتح علی خان کی گائی ہوئی مشہور حمد'' کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے '' کے مشکل الفاظ کو درست ادائیگی اور ''لے ''کے ساتھ صرف تین سال کی عمر میں ترنم سے گایا کرتی تھی۔عام طور پر پانچ سال کی عمر بچے سکول پڑھنے جاتے ہیں لیکن ارفع نے ضد کرکے صرف تین سال کی عمر میں سکول جانا شروع کردیا تھا۔بعدازاں پڑھائی کے ساتھ ساتھ نعت خوانی کے مقابلوں ٗ بحث و مباحثے ٗ موسیقی اور بیت بازی میں اپنی عمر کے بچوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ پھر جب اس کا رجحان کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی جانب مبذول ہوا تو اس نے اپنی زندگی کی پہلی دہائی مکمل کرنے سے قبل ہی دنیا کی کم ترین مائیکرو سافٹ پروفیشنل کا اعزاز حاصل کرلیا۔
2005ء میں مائیکرو سافٹ ہیڈ کوارٹر کی جانب سے ارفع کریم کو امریکہ آنے کی باقاعدہ دعوت دی گئی۔ مائیکرو سافٹ کے انجینئراس کم سن پاکستانی بچی کی ذہانت کو پرکھنا چاہتے تھے۔ ارفع اپنے والد امجد کریم رندھاوا کے ساتھ جب امریکہ میں مائیکرو سافٹ کے ہیڈکوارٹر پہنچی تو اس کمسن ذہین بچی نے نہ صرف مائیکرو سافٹ کے تمام ماہرین اور انجینئرز کو متاثر کیا بلکہ امریکی اخبارات و رسائل کی جانب سے ارفع کریم پر آرٹیکل ٗ فیچراور مضامین شائع کئے گئے۔
بل گیٹس جس کے پاس کسی کو دینے کے لیے ایک سیکنڈ کا وقت بھی نہیں ہوتا ارفع کریم سے نہ صرف اس نے دس منٹ کی خصوصی ملاقات کی بلکہ ارفع کی صلاحیتوں کااعتراف کرتے ہوئے ان کی بھرپور پذیرائی بھی کی۔اور کہا ارفع جب بھی چاہے گی میں خود پاکستان اس کے خوابوں کوعملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان جاؤں گا۔کہا یہ جاتا ہے کہ پاکستان کے اندرونی حالات کے پس منظر میں کئے گئے تنقیدی سوالات کے جواب ارفع کریم نے اس قدر کمال مہارت اور اعتماد کے ساتھ دیئے کہ انگریز حیرت زدہ رہ گئے اور پکار اٹھے کہ اس بچی کے دماغ میں قدرت نے کوئی انسائیکلوپیڈیا فکس کررکھا ہے اس سے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ کسی اور شعبے کے بارے میں بھی سوال کیاجاتا تو لمحہ بھر تاخیر کئے بغیر صحیح جواب دیتیں۔
2006ء میں مائیکرو سافٹ کے بین الاقوامی ماہرین کی کانفرنس سپین کے شہر بارسلونا میں منعقد ہوئی جس میں دنیا بھر سے منتخب پانچ ہزار آئی ٹی ماہرین کو مدعو کیاگیا تھا۔ کمپیوٹر کے حوالے سے اس عظیم الشان کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی ایک گیارہ سالہ بچی ''ارفع کریم'' کررہی تھی۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا '' اپنے زمانے سے آگے بڑھوGet ahead of the game''اس کانفرنس میں ارفع کریم کے مقالے نے دنیا بھر کے کمپیوٹر ماہرین سے نہ صرف حقیقی معنوں میں داد وصول کی بلکہ حیرت اور تجسس کے کئی در وا کردیئے۔سپین میں ایک ہفتہ قیام کے دوران کئی بین الاقوامی ٹی وی چینلز پر ارفع کے انٹرویو نشر ہوئے اور ماہرین ٹیکنالوجی کے بے شمار وفود نے ننھی منھی ارفع کریم سے اعزاز سمجھ کر ملاقات کی۔سپین میں ذہانت اور مائیکرو سافٹ ٹیکنالوجی میں مہارت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو سائبر پرنس (Cyber Pricess)کا خطا ب دیاگیا۔
مصروفیات سے قطع نظر جب ارفع کریم نے فلائنگ کلب کا تفریحی دورہ کیا تو صرف ایک گھنٹے کی قلیل مدت میں ارفع نے جہاز اڑانا سیکھ لیا اور First Flight Certificate حاصل کیا۔ ارفع کے اعتماد اور مہارت کو دیکھتے ہوئے انسٹرکٹر پائلٹ کا کہنا تھا کہ چند ماہ کی تربیت کے بعد ارفع کمرشل پائلٹ کا اجازت نامہ حاصل کرسکتی ہے۔
دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ ارفع میں شاعرانہ صلاحیتیں بھی عروج پر تھیں مقصدیت ٗ موضوعات کی سنجیدگی ٗ قومیت اور زندگی کی ابدی حیثیت کے علاوہ بچپن کی رنگینی اور شرارتوں کارنگ بھی نمایاں تھا اپنے احساسات کا اظہار ارفع انگریزی ٗ اردو اور کبھی کبھار پنجابی کے عارفانہ انداز میں کیا کرتی تھی۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ کم عمری میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی ارفع کریم کی تحریروں اور تقریروں میں نگاہ بلند ٗ سخن دلنواز اور جاں پر سوز کا عنصر شامل تھا۔اتنی چھوٹی سی عمر میں ارفع کریم نے فاطمہ جناح گولڈ میڈل ٗ سلام پاکستان ایوارڈ ٗ صدارتی ایوارڈ تمغہ حسن کارکردگی حاصل کیے۔
کامیابیوں اور کامرانیوں کا سفر یونہی ہی جاری تھا کہ وہ منحوس گھڑی سر پر آ پہنچی جب 22 دسمبر 2011 کی شب اس کے سر میں درد کا شدید احساس ہوا۔ طبیعت زیادہ بگڑنے پر اسے سی ایم ایچ ہسپتال لاہور میں داخل کروا دیا گیا یہ درد اتنا شدید تھا کہ دل اور دماغ دونوں شدید متاثر ہوئے اور ارفع کومے میں چلی گئی۔ارفع کی بیماری پر جہاں والدین اور عزیز و اقارب سخت پریشان تھے وہاں ہر پاکستانی اس ذہین بچی کی صحت یابی کے لیے خلوص دل سے دست بدعا تھا ارفع کی بیماری کی خبر بین الاقوامی میڈیاکے ذریعے جب بل گیٹس تک پہنچی تو اس نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر ارفع کے والدین سے رابطہ کیا اور ہر قسم کی معاونت کی یقین دہانی کرواتے ہوئے بین الاقوامی معا لجین پینل کے مقامی ڈاکٹروں سے رابطے کاانتظام کیا۔ 13 جنوری کو ارفع کی حالت میں کچھ بہتری پیدا آئی تب اسے علاج کی غرض سے بیرون ملک لے جانیپر غور کیاجانے لگا لیکن یہ کوششیں اس وقت ادھوری رہ گئیں جب 24 دن مسلسل بے ہوش رہنے کے بعد ملکی اور غیر ملکی ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود 14 جنوری 2012 کی شب ارفع کریم انتقال کرگئیں۔
ارفع کریم جس نے انتہائی چھوٹی سی عمر میں اپنی خداداد صلاحیتوں اور ذہانت کی بنا پر پوری دنیا کی توجہ حاصل کرلی تھی وہ حقیقت میں کیا تھی والدین عزیز و اقارب سے کس قدر محبت کرتی تھی اور مستقبل میں اس کے خواب کیا تھے آئیے ارفع کے ان ادھورے خوابوں کو جانتے ہوئے ان کی تعبیر کی کوشش کریں۔
والد کرنل امجد کریم کے مطابق ارفع کریم کمیپوٹر ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے نئی نسل خصوصا محروم طبقے کے بچوں اور بچیوں کو اعلی ترین معیار کی تعلیم تربیت اور شعور کے یکساں مواقع فراہم کرناچاہتی تھی اپنے ان مقاصد کی تکمیل کے لیے وہ اپنے ذہن میں مکمل لائحہ عمل رکھتی تھی بلکہ اپنے خوابوں کو عملی شکل دینے کے معاملات پر وہ اکثر تبادلہ خیال کرتی رہتی تھی۔کرنل امجد بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ ارفع کے ساتھ اپنے گاؤں رام دیوالی جس کانام اب ''ارفع نگر'' ہوچکا ہے ٗ جارہے تھے راستے میں کھوجی زمین پر کچھ تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ان کو دیکھ کر ارفع نے پوچھا پاپا یہ لوگ زمین پر کیا تلاش کررہے ہیں میں نے بتایا کہ یہ لوگ چوری ہونے والی بھینسوں کے کھروں کی نشاندھی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں جہاں پہنچ بھینسوں کے کھرے ختم ہوجائیں گے یہ سمجھا جائے گا کہ چوری ہونے والی بھینسیں اسی جگہ موجود ہیں۔ میری بات سن کر ارفع کریم نے تجسس بھرے لہجے میں کہا کہ ابو یہ کس زمانے کی باتیں کررہے ہیں اکیسویں صدی کمیپوٹر ٹیکنالوجی کا دور ہے اور یہ اب بھی پرانے وقتوں کی طرح چوری ہونے والی بھینسوں کے کھرے تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ ارفع کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے دور میں پھر کیسے بھینسوں کی چوری پکڑی جاسکتی ہے تو ارفع نے جواب دیا۔پاپا...... کمپیوٹر کی ایک چپ بھینس کی دم یا جسم کے کسی بھی حصے پر چسپاں کردی جائے تو جی پی آر کے ذریعے وہ بھینس جہاں بھی ہوگی کمیپوٹرٹیکنالوجی کے ذریعے ایک سیکنڈ میں اس کا پتہ چلاجاسکتا ہے۔ ارفع کی ذہانت کے حوالے سے یہ تو صرف ایک واقعہ ہے۔ ایسے درجنوں واقعات جو ارفع کریم کی ذہانت اور صلاحیت کا عملی اظہار بنتے ہیں۔
ارفع کے بہت اعلی اونچے منصوبے تھے وہ پاکستان کا روشن ستارہ تھی وہ اکثر کہتی کہ ہم تعلیم میں بہت پیچھے ہیں ہم نے آئی ٹی کو ترجیح نہیں دی جبکہ بھارت نے آزاد ہونے کے بعد سے ہی جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا اسی لیے سلی کون ویلی قائم کرکے آگے نکل گیا۔ ارفع کا خواب تھا کہ بھارت میں سلی کون ویلی کی طرح پاکستان میں بھی ڈی جی کون ویلی بناؤں جس کا افتتاح بل گیٹس کریں۔لیکن اس ذہین بچی کے خواب ادھورے ہی رہ گئے اور وہ دنیا سے چلی گئی۔آج وہ خود تواس دنیا میں نہیں لیکن اس کا نام پاکستان کا ہر بچہ بچہ بخوبی جانتا ہے بلکہ ارفع کے کارناموں کے بارے میں جاننے کی جستجو رکھتا ہے۔
وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے یہ کہتے ہوئے کہ ارفع کریم کے خواب بکھرنے نہیں دیں گے لاہور میں زیر تعمیر ٹیکنالوجی پارک کا نام تبدیل کرکے ''ارفع سافٹ ویئرٹیکنالوجی پارک'' رکھ دیا بلکہ طلباو طالبات میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کی پہلی تقریب کو بھی ان کے نام سے منسوب کردیا ہے جس کے مہمان خصوصی ارفع کریم کے والدین تھے جبکہ کراچی آئی ٹی سینٹر کا نام بھی ''ارفع کریم'' پر رکھ دیاگیا۔محکمہ ڈاک کی جانب سے ایک یادگاری ٹکٹ ارفع کریم کے نام پر جاری کیاجاچکا ہے۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گی
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گی
جہاں تک اداروں کا نام رکھنے کا تعلق ہے یہ ارفع کریم کی یادوں کو تازہ کرنے کا باعث تو ضرور بنے گا لیکن اصل بات ارفع کریم کے وہ خواب ہیں جن کو وہ اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانا چاہتی تھی ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ارفع کریم فاؤنڈیشن (ٹرسٹ) کے نام سیایک ادارہ رجسٹرڈ کروایا جارہا ہے جس کے پلیٹ فارم پر ارفع کریم کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کی جستجو کی جائے گی۔لیکن ان خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کی ذمہ داری صرف ارفع کریم کے والدین یا عزیز و اقارب کی ہرگز نہیں ہے کیونکہ اس مقصد کے لیے کثیر سرمائے ٗ کمپیوٹرٹیکنالوجی اور ماہرین انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوگی اس لیے پوری پاکستانی قوم ٗ حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان کو بھی حقیقی معنوں میں شریک ہونا ہوگا کیونکہ ارفع کا خواب پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ایک عظیم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ملک کی حیثیت سے متعارف
ارفع کریم کو شہرت کی بلندیوں پر پرواز کرتے ہوئے دیکھ کر دوبئی کے انفارمیشن ٹیکنالوجی پروفیشنل سوسائٹی کی جانب سے دعوت دی گئی وہاں بھی ارفع نے حیرتوں اور تجسس کے نئے گوشے کھول دیئے۔دیگر
مصروفیات سے قطع نظر جب ارفع کریم نے فلائنگ کلب کا تفریحی دورہ کیا تو صرف ایک گھنٹے کی قلیل مدت میں ارفع نے جہاز اڑانا سیکھ لیا اور First Flight Certificate حاصل کیا۔ ارفع کے اعتماد اور مہارت کو دیکھتے ہوئے انسٹرکٹر پائلٹ کا کہنا تھا کہ چند ماہ کی تربیت کے بعد ارفع کمرشل پائلٹ کا اجازت نامہ حاصل کرسکتی ہے۔
دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ ارفع میں شاعرانہ صلاحیتیں بھی عروج پر تھیں مقصدیت ٗ موضوعات کی سنجیدگی ٗ قومیت اور زندگی کی ابدی حیثیت کے علاوہ بچپن کی رنگینی اور شرارتوں کارنگ بھی نمایاں تھا اپنے احساسات کا اظہار ارفع انگریزی ٗ اردو اور کبھی کبھار پنجابی کے عارفانہ انداز میں کیا کرتی تھی۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ کم عمری میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی ارفع کریم کی تحریروں اور تقریروں میں نگاہ بلند ٗ سخن دلنواز اور جاں پر سوز کا عنصر شامل تھا۔اتنی چھوٹی سی عمر میں ارفع کریم نے فاطمہ جناح گولڈ میڈل ٗ سلام پاکستان ایوارڈ ٗ صدارتی ایوارڈ تمغہ حسن کارکردگی حاصل کیے۔
کامیابیوں اور کامرانیوں کا سفر یونہی ہی جاری تھا کہ وہ منحوس گھڑی سر پر آ پہنچی جب 22 دسمبر 2011 کی شب اس کے سر میں درد کا شدید احساس ہوا۔ طبیعت زیادہ بگڑنے پر اسے سی ایم ایچ ہسپتال لاہور میں داخل کروا دیا گیا یہ درد اتنا شدید تھا کہ دل اور دماغ دونوں شدید متاثر ہوئے اور ارفع کومے میں چلی گئی۔ارفع کی بیماری پر جہاں والدین اور عزیز و اقارب سخت پریشان تھے وہاں ہر پاکستانی اس ذہین بچی کی صحت یابی کے لیے خلوص دل سے دست بدعا تھا ارفع کی بیماری کی خبر بین الاقوامی میڈیاکے ذریعے جب بل گیٹس تک پہنچی تو اس نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر ارفع کے والدین سے رابطہ کیا اور ہر قسم کی معاونت کی یقین دہانی کرواتے ہوئے بین الاقوامی معا لجین پینل کے مقامی ڈاکٹروں سے رابطے کاانتظام کیا۔ 13 جنوری کو ارفع کی حالت میں کچھ بہتری پیدا آئی تب اسے علاج کی غرض سے بیرون ملک لے جانیپر غور کیاجانے لگا لیکن یہ کوششیں اس وقت ادھوری رہ گئیں جب 24 دن مسلسل بے ہوش رہنے کے بعد ملکی اور غیر ملکی ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود 14 جنوری 2012 کی شب ارفع کریم انتقال کرگئیں۔
ارفع کریم جس نے انتہائی چھوٹی سی عمر میں اپنی خداداد صلاحیتوں اور ذہانت کی بنا پر پوری دنیا کی توجہ حاصل کرلی تھی وہ حقیقت میں کیا تھی والدین عزیز و اقارب سے کس قدر محبت کرتی تھی اور مستقبل میں اس کے خواب کیا تھے آئیے ارفع کے ان ادھورے خوابوں کو جانتے ہوئے ان کی تعبیر کی کوشش کریں۔
والد کرنل امجد کریم کے مطابق ارفع کریم کمیپوٹر ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے نئی نسل خصوصا محروم طبقے کے بچوں اور بچیوں کو اعلی ترین معیار کی تعلیم تربیت اور شعور کے یکساں مواقع فراہم کرناچاہتی تھی اپنے ان مقاصد کی تکمیل کے لیے وہ اپنے ذہن میں مکمل لائحہ عمل رکھتی تھی بلکہ اپنے خوابوں کو عملی شکل دینے کے معاملات پر وہ اکثر تبادلہ خیال کرتی رہتی تھی۔کرنل امجد بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ ارفع کے ساتھ اپنے گاؤں رام دیوالی جس کانام اب ''ارفع نگر'' ہوچکا ہے ٗ جارہے تھے راستے میں کھوجی زمین پر کچھ تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ان کو دیکھ کر ارفع نے پوچھا پاپا یہ لوگ زمین پر کیا تلاش کررہے ہیں میں نے بتایا کہ یہ لوگ چوری ہونے والی بھینسوں کے کھروں کی نشاندھی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں جہاں پہنچ بھینسوں کے کھرے ختم ہوجائیں گے یہ سمجھا جائے گا کہ چوری ہونے والی بھینسیں اسی جگہ موجود ہیں۔ میری بات سن کر ارفع کریم نے تجسس بھرے لہجے میں کہا کہ ابو یہ کس زمانے کی باتیں کررہے ہیں اکیسویں صدی کمیپوٹر ٹیکنالوجی کا دور ہے اور یہ اب بھی پرانے وقتوں کی طرح چوری ہونے والی بھینسوں کے کھرے تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ ارفع کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے دور میں پھر کیسے بھینسوں کی چوری پکڑی جاسکتی ہے تو ارفع نے جواب دیا۔پاپا...... کمپیوٹر کی ایک چپ بھینس کی دم یا جسم کے کسی بھی حصے پر چسپاں کردی جائے تو جی پی آر کے ذریعے وہ بھینس جہاں بھی ہوگی کمیپوٹرٹیکنالوجی کے ذریعے ایک سیکنڈ میں اس کا پتہ چلاجاسکتا ہے۔ ارفع کی ذہانت کے حوالے سے یہ تو صرف ایک واقعہ ہے۔ ایسے درجنوں واقعات جو ارفع کریم کی ذہانت اور صلاحیت کا عملی اظہار بنتے ہیں۔
ارفع کے بہت اعلی اونچے منصوبے تھے وہ پاکستان کا روشن ستارہ تھی وہ اکثر کہتی کہ ہم تعلیم میں بہت پیچھے ہیں ہم نے آئی ٹی کو ترجیح نہیں دی جبکہ بھارت نے آزاد ہونے کے بعد سے ہی جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا اسی لیے سلی کون ویلی قائم کرکے آگے نکل گیا۔ ارفع کا خواب تھا کہ بھارت میں سلی کون ویلی کی طرح پاکستان میں بھی ڈی جی کون ویلی بناؤں جس کا افتتاح بل گیٹس کریں۔لیکن اس ذہین بچی کے خواب ادھورے ہی رہ گئے اور وہ دنیا سے چلی گئی۔آج وہ خود تواس دنیا میں نہیں لیکن اس کا نام پاکستان کا ہر بچہ بچہ بخوبی جانتا ہے بلکہ ارفع کے کارناموں کے بارے میں جاننے کی جستجو رکھتا ہے۔
وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے یہ کہتے ہوئے کہ ارفع کریم کے خواب بکھرنے نہیں دیں گے لاہور میں زیر تعمیر ٹیکنالوجی پارک کا نام تبدیل کرکے ''ارفع سافٹ ویئرٹیکنالوجی پارک'' رکھ دیا بلکہ طلباو طالبات میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کی پہلی تقریب کو بھی ان کے نام سے منسوب کردیا ہے جس کے مہمان خصوصی ارفع کریم کے والدین تھے جبکہ کراچی آئی ٹی سینٹر کا نام بھی ''ارفع کریم'' پر رکھ دیاگیا۔محکمہ ڈاک کی جانب سے ایک یادگاری ٹکٹ ارفع کریم کے نام پر جاری کیاجاچکا ہے۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گی
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گی
جہاں تک اداروں کا نام رکھنے کا تعلق ہے یہ ارفع کریم کی یادوں کو تازہ کرنے کا باعث تو ضرور بنے گا لیکن اصل بات ارفع کریم کے وہ خواب ہیں جن کو وہ اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانا چاہتی تھی ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ارفع کریم فاؤنڈیشن (ٹرسٹ) کے نام سیایک ادارہ رجسٹرڈ کروایا جارہا ہے جس کے پلیٹ فارم پر ارفع کریم کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کی جستجو کی جائے گی۔لیکن ان خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کی ذمہ داری صرف ارفع کریم کے والدین یا عزیز و اقارب کی ہرگز نہیں ہے کیونکہ اس مقصد کے لیے کثیر سرمائے ٗ کمپیوٹرٹیکنالوجی اور ماہرین انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوگی اس لیے پوری پاکستانی قوم ٗ حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان کو بھی حقیقی معنوں میں شریک ہونا ہوگا کیونکہ ارفع کا خواب پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ایک عظیم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ملک کی حیثیت سے متعارف کروانا بھی تھا اور وہ پاکستانی بچے جو آج بھی صدیوں پرانے تعلیمی نظام اور ذہنی فرسودگی کا شکار ہیں ان کو پستیوں سے نکال کر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ذریعے اقبال ؒ کے شاہین کی طرح بلندیوں پر محو پرواز دکھانا تھا۔