ادریس گمنام ہیرو

ادریس کا نام شاید کسی قومی نصاب میں شامل نہ ہو، نہ ہی اس پر کوئی فلم بنی ہے، نہ کوئی سڑک اس کے نام سے منسوب ہے۔ لیکن اگر عظمت، شہرت اور طاقت کی بجائے اسے قربانی، جدوجہد اور خلوص سے ماپا جائے تو ادریس بلاشبہ اس صدی کے اْن گمنام ہیروز میں شامل ہے جنہوں نے دنیا کو بدلے بغیر اپنے حصے کی دنیا بدل دی۔ڈھاکہ شہر کی گنجان، بو دار اور تنگ گلیوں میں، وہ ہر روز علی الصبح ایک ایسی جنگ لڑنے نکلتا تھا جس کا کوئی چرچا نہ تھا۔ اْس کے پاس نہ حفاظتی لباس تھا، نہ دستانے، نہ ماسک، صرف ایک مضبوط ارادہ اور غیرمتزلزل یقین تھا کہ غربت انسان کو مجبور کر سکتی ہے، مگر بے ضمیر نہیں۔ وہ نالوں میں اْترتا، انسانی فضلہ صاف کرتا، مگر دل میں ایک شفاف خواب لیے کہ اِس کی بیٹیاں اِس دلدل سے آزاد ہوں گی۔ اْن کے ہاتھوں میں کتابیں ہوں گی، چہروں پر وقار، اور قدموں میں زمین کی خودی۔
جب وہ شام کو نہا کر صاف کپڑوں میں گھر آتا، تو اْس کے چہرے پر تھکن نہیں، مسکراہٹ ہوتی۔ وہ بیٹیوں کو قرآن پڑھاتا، اسکول کا کام دیکھتااورخود انہیں ٹیوشن چھوڑنے جاتا۔ اْنکو یہ معلوم نہیں تھا کہ اْن کا باپ کہاں کام کرتا ہے۔کیونکہ ادریس نے اپنی غربت کو اْن کی عزت کے آگے کبھی آنے نہیں دیا۔بہت زیادہ انتظار اورسخت محنت کے بعد وہ دن آیا جس دن کا وہ برسوں سے منتظر تھا۔
ایک بیٹی یونیورسٹی میں فزکس کی طالبہ بنی، دوسری نرسنگ کے شعبے میں آ گئی، تیسری نے میرٹ اسکالرشپ حاصل کی اور چوتھی اسکول کی ٹاپر نکلی۔ وہ سب کچھ پا گئیں جو اْن کے باپ کے پاس نہ تھا یعنی تعلیم، پہچان، عزت اور ایک نیا مقدر۔ اور یہ سب ایک باپ کی خاموش، مخلص، تھکی ہاری مگر عظیم محنت کا صلہ تھا۔
جب بنگلادیشی فوٹوگرافر جی ایم بی آکاش نے ادریس کی تصویر لی جس میں وہ سیوریج کے سوراخ سے گرد آلود چہرہ نکالے، ایک آنکھ بند کیے دیکھ رہا تھا۔ اْس وقت تو دنیا رْک گئی۔ یہ صرف تصویر نہ تھی، یہ چیخ تھی۔ اْن لاکھوں مزدوروں کی، جو دن رات محنت تو کرتے ہیں مگر عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے۔ یہ تصویر ٹائم، نیشنل جیوگرافک اور گارڈین جیسے بڑے اداروں میں چھپی، ایوارڈز کی فہرستوں میں آئی مگر ادریس کے لیے سب سے بڑا انعام صرف ایک جملہ تھا جو اْس کی بیٹی نے کہا: ابو، ہمیں آپ پر فخر ہے۔
بعد ازاں، حکومت نے اْسے ریٹائرمنٹ گرانٹ دی۔ ایک مقامی این جی او نے گھر الاٹ کیااور اب وہ ایک چھوٹی دْکان میں کام کرتا ہے۔ وہ نالوں میں نہیں اْترتا، لیکن اپنی بیٹیوں کی کامیابی کے لیے جو گہرائی اْس نے جھیلی وہ کسی کان میں کام
 کرنے والے مزدور سے زیادہ وزنی اور کسی جنگجو کی تلوار سے زیادہ تیز تھی۔
ادریس کی کہانی صرف ایک فرد کی داستان نہیں، یہ انسان کی فطرت کی سب سے حسین شکل ہے۔ یہ ثابت کرتی ہے کہ غربت گناہ نہیں، کم ظرفی ہے۔ اور اگر کسی انسان کے دل میں نیت صاف ہو، تو وہ سیوریج سے بھی سونا نکال سکتا ہے خوابوں کا، تعلیم کا اورعزت کا۔
ہم ادریس کو صرف سلام نہیں، سلیوٹ پیش کرتے ہیں۔
وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تم چاہو تو دنیا بدل سکتے ہو۔ تمہارے پاس دولت نہ ہو، طاقت نہ ہو، رتبہ نہ ہو لیکن اگر تمہارے اندر حوصلہ ہو، دل میں لگن ہواور اپنے بچوں کے لیے ایک بے لوث خواب ہو، تو تم ادریس بن سکتے ہو۔
 

Daily Program

Livesteam thumbnail