فوقیت مآب کارڈینل لوئس انتونیو تاگلے کی ایشیا کی کلیسیا کو ”نئے سرے سے اْمید کے زائر“ بننے کی دعوت
فوقیت مآب کارڈینل لوئس انتونیو تاگلے نے پینانگ ملائیشیامیں ”اْمید کی عظیم زیات“ کا آغاز ایک نہایت اثر انگیز پیغام کے ساتھ کیا۔جس میں انہوں نے ایشیا کی کلیسیاکو ”نئے سرے سے اْمید کے زائر“ بننے کی دعوت دی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ سچی اْمید محض خوش فہمی یا بہتر مستقبل کی توقع نہیں، بلکہ خدا کے فضل اور یسوع کی تبدیل کرنے والی کہانی میں جڑ پکڑتی ہے اور یہی پیغام اب ریڈیو ویریتاس ایشیا (RVA) کے ذریعے پورے ایشیا تک پہنچ رہا ہے۔
کارڈینل تاگلے نے کہاکہ سب سے پہلے، میں فیڈریشن آف ایشین بشپس کانفرنسز (FABC) کا، خاص طور پر اُس کے آفس آف ایونجیلائزیشن کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جس نے 2025 کے اس جوبلی سال میں ایشیا کے مومنین کے لیے اْمید کا یہ عظیم سفر منظم کیا۔انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنی شرکت کے بارے میں پاپائے اعظم لیو چہار دہم کو آگاہ کیا تو پوپ لیونے فرمایا:تمام لوگوں کو میری دْعائیں اور برکتیں پہنچا دینا!
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ڈیکاسٹری فار ایونجیلائزیشن، خاص طور پراس کے شعبہ برائے اولین بشارت اور نو قائم مقامی کلیسیاؤں کی جانب سے بھی گرمجوش سلام لائے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ میرے لیے فضل اور برکت ہے کہ مجھے اس سنڈی اجتماع میں پہلا کلیدی خطاب دینے کی دعوت دی گئی۔کارڈینل تاگلے نے 2006 کی یاد بھی تازہ کی جب وہ چیانگ مائی، تھائی لینڈ میں پہلی ایشیائی مشن کانگریس میں مرکزی مقرر تھے۔ اُس خطاب کا عنوان تھا:”ایشیا میں مشن: یسوع کی کہانی سنانا“۔وہ کہتے ہیں کہ میں اُس وقت ایک بہت کم عمر بشپ تھا اور خطاب کے دوران شدید گھبراہٹ میں تھا۔ آخر کون گھبرائے بغیر رہ سکتا تھا جب اْس وقت کے’’کانگریگیشن فار ایونجیلائزیشن آف پیپلز“ کے سبکدوش ہونے والے پریفیکٹ کارڈینل اور نومنتخب پریفیکٹ کارڈینل دونوں موجود ہوں؟آج پھر آپ کے سامنے کھڑے ہو کر مجھے وہی گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔ مگر حالات جیسے بھی ہوں، ہم یسوع کی کہانی سنانا نہیں چھوڑتے،نہ ایشیا میں، نہ دنیا میں۔
کارڈینل تاگلے نے اپنے پیغام میں کہاکہ ہم کبھی یسوع کی کہانی سنانے سے نہیں تھکیں گے۔ وہ خود بھی کہانی سنانے والا ہے اور خود ہی وہ کہانی ہے جو انسانوں، برادریوں، گنہگاروں، بے دخل شدہ لوگوں اور پوری دنیا کی کہانیوں کو بدل دیتی ہے۔
خطاب کے لیے مجھے جو عنوان دیا گیا ہے وہ یہ ہے: اْمید کے نئے زائر ین بن کر ایک مختلف راستہ اختیار کرنا۔
یہ عنوان دراصل ایف اے بی سی کی ”پچاسویں جنرل کانفرنس“ (بینکاک 2022) کے عمومی موضوع کی توسیع ہے، جو تھا:
”ایشیا کے لوگوں کے ساتھ مل کر سفر۔۔۔ اور وہ ایک مختلف راستے سے لوٹ گئے“ (متی 2:12)
متی کی انجیل کے اس حصے میں مجوسیوں کا ذکر ہے جو یسوع،نئے بادشاہ کو سجدہ کرنے کے بعد واپس اپنے وطن لوٹے۔ مگر خواب میں الٰہی اشارہ ملنے پر وہ ہیرودیس کے پاس واپس جانے کے بجائے ایک مختلف راستے سے چلے گئے۔
اسی طرح ایشیا کے لوگوں کو بھی دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اْمید کے زائربن کر ایک نیا راستہ اختیار کریں لیکن یہ راستہ مقدس خوابوں اور خدا کے الہام سے پیدا ہو،نہ کہ محض بھاگنے یا فرار کی خواہش سے۔
میری گفتگو کے بھی دو حصے ہیں، جو اصل عنوان کے دونوں حصوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔
پہلا حصہ: ”اْمید کے نئے سرے سے زائر“
اْمید کے سچے زائر بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یسوع کی کہانی کے حامل بنیں۔ہماری مسیحی گفتگو، ہمارے اعمال، ہمارے تعلقات اور ہماری اپنی شخصیت،یہ سب مل کر یسوع کی زندہ کہانی کا حصہ بنیں۔یوں ہم خود اْمید کی زندہ کہانیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ہم اپنی زندگیوں کے ذریعے دکھاتے ہیں کہ یسوع کی کہانی نے ہمیں کس طرح نئی سمت دی اور کس طرح ایمان، اْمید اور محبت کی نئی کہانیاں ہمارے اندر لکھی گئیں۔
آئیے میں آپ سب کو یاد دلاؤں کہ ہم مسیحی اْمید کی بات کر رہے ہیں۔ یہ محض خوش خیالی یا یہ سوچ نہیں کہ سب کچھ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ خواہش پر مبنی سوچ بھی نہیں اور نہ ہی مشکلات کا انکار ہے۔ مسیحی اْمید کبھی بھی زندگی کی سخت حقیقتوں اور آزمائشوں سے بھاگنے کا نام نہیں ہے۔میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ہم لفظ اْمید اْس وقت استعمال کرتے ہیں جب دراصل ہم خواہش کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔
دراصل مسیحی اْمید ایک الہٰی صفت ہے، جو خدا کے فضل سے ہمارے اندر ڈالی جاتی ہے اور جس کا مرکز خدا خود ہے۔ اس اْمید کا تعلق کسی چیز سے نہیں بلکہ یسوع مسیح سے ہے، جو خدا کا مجسم کلمہ ہے۔
اسی نکتے پر واپسی کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اگر کسی بیمار شخص کو تسلی دینی ہو تو”مجھے اْمید ہے کہ تم جلد ٹھیک ہو جاؤ گے“کہنے کی بجائے زیادہ صحیح یہ کہنا ہوگا:”میں تمہاری شفا کے لیے خدا پر اْمید رکھتا ہوں“۔
مسیحی اْمید کی خوبصورتی یہ ہے کہ چونکہ اس کا آغاز بھی یسوع ہے اور اس کا مقصد بھی یسوع ہی ہے۔اس لیے یہ اْمید انسان کو انسانیت کے قریب تر کرتی ہے۔
کیتھولک چرچ کی تعلیمات(1818) میں مسیحی اْمید یوں بیان کی گئی ہے:
اْمید کی فضیلت اُس خوشی کی خواہش کا جواب ہے جو خدا نے ہر انسان کے دل میں رکھی ہے۔ یہ انسانی سرگرمیوں کی اْمیدوں کو پاک کرتی اور انہیں آسمانی بادشاہی کی طرف ترتیب دیتی ہے۔ یہ ہمیں مایوسی سے بچاتی، ترک کیے جانے کے وقت سہارا دیتی نیزہمارے دل کو ابدی مسرت کی توقع میں کھولتی ہے۔ اْمید سے مضبوط ہوکر ہم خود غرضی سے بچے رہتے ہیں اور اُس خوشی کی طرف بڑھتے ہیں جو محبت سے پیدا ہوتی ہے۔
چنانچہ مسیحی اْمید انسان کی تین بنیادی خواہشات خوشی، آزمائشوں میں ثابت قدمی اور سچی محبت کو بلند کرتی، پاک کرتی اور خدا کی طرف موڑتی ہے۔بدقسمتی سے بہت سے لوگ جھوٹی خوشیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جیسے زیادہ پیسہ، مہنگے کپڑے، بڑے گھر، زیورات اور جدید آلات۔کچھ طلبہ محنت سے پڑھنے کے بجائے نقل سے امتحان پاس کرتے ہیں۔انتخابی مہمات میں کچھ اْمیدوار لوگوں کو مدد اس لیے نہیں دیتے کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ ووٹ مل جائیں۔ایسی چیزیں محبت نہیں بلکہ خود غرضی ہیں، جو اچھے عمل کے پردے میں چھپی ہوتی ہیں۔ اور نتیجہ ہمیشہ خالی پن اور مایوسی ہوتا ہے۔اگر میں جانچنا چاہوں کہ کیا واقعی میں اْمید کی فضیلت پر چل رہا ہوں، تو مجھے خود سے یہ سوال پوچھنے چاہئیں:
مجھے خوشی کس چیز سے ملتی ہے؟
میری ثابت قدمی کا اصل ذریعہ کیا ہے؟
میری محبت کتنی پاک اور سچی ہے؟
کیا میری زندگی کی مسافت، میرا سفر اْمید سے پروان چڑھتا ہے؟
کیا یہ راستے مجھے یسوع اور اُس کی بادشاہی کی طرف لے جا رہے ہیں؟
اب آئیے خطاب کے عنوان کے پہلے حصے کی طرف چلتے ہیں:
”ایک مختلف راستے پر چلنا“
جو مجوسیوں کے سفرِ اْمید کا ایک اہم پہلو ہے۔درحقیقت مجوسیوں کی کہانی یسوع کی کہانی ہے۔یسوع جو نور، ستارہ اور زندگی کا راستہ ہے۔وہ مختلف قوموں اور ثقافتوں کے لوگوں کو بلاتا ہے۔ انہیں اپنی طرف اکٹھا کرتااور اپنی بادشاہی کی طرف لے جاتا ہے۔مجوسیوں کا سفر ”سفرِ اْمید“ ہے۔یہ اْس بات کی کہانی ہے کہ یسوع کا نور ہمیں سفر پر کیسے لے نکلتا ہے۔ایک ایسا سفر جو مختلف مراحل سے گزرتا ہے،جسے صبر اور مقصد کی وضاحت درکار ہوتی ہے۔مجوسیوں کی کہانی یسوع کے ساتھ ایک اور کہانی کے ساتھ بھی جوڑتی ہے، وہ کہانی ہیرود یس کی ہے۔ ان کی کہانیاں آپس میں جْڑی ہوئی ہیں۔ یہ کہانیاں مختلف قسم کے سفرِ مذہب کو ظاہر کرتی ہیں: یسوع کے ساتھ یا بغیر، یسوع کی طرف یا یسوع کے خلاف۔ یہ کہانیاں اْمید کے سفر اور مایوسی کے سفر کے درمیان فرق واضح کرتی ہیں۔میں اس پیچیدہ تعلق پر توجہ دینا چاہتا ہوں جو مجوسیوں کی کہانی اور ہیرود یس کی کہانی کے درمیان ہے۔ مجھے کہنا چاہیے کہ مجوسیوں نے نہ صرف آخر میں بلکہ اپنی پوری پیدل مسافت کے آغاز سے ہی ایک مختلف راستہ اختیار کیا۔ شروع سے ہی مجوسیوں نے ہیرود یس کے راستے سے الگ راستہ چنا۔ مجوسیوں نے اْمید کا راستہ چْنا، جو ہیرود یس کے ”مایوسی کے راستے“سے بالکل مختلف تھا۔
آئیے اْن کی کہانی کے کم از کم تین پہلوؤں کی وضاحت کریں:
پہلا پہلو:مجوسی مشرق سے تھے۔ یہودیوں نے انہیں غیر یہودیوں میں شمار کیا۔ کچھ ماہرین کے مطابق یہ لوگ مذہبی پیشے سے تعلق رکھتے تھے، کچھ کے مطابق یہ جادوگر،خوابوں اور روحانی معاملات کے ماہر تھے اور کچھ کے مطابق یہ فلکیات کے ماہر تھے۔ انہیں یہودی عقائد اور تعلیمات کا کچھ علم ضرور تھا تاکہ وہ نئے یہودی بادشاہ کی پیدائش کے بارے میں جان سکیں۔یہ ابتدائی علم ستاروں کے مطالعے کے ساتھ مکمل ہوا۔ قدیم لوگ مانتے تھے کہ ہر شخص کا ایک ستارہ ہوتا ہے۔ (یہ نہیں کہ ہر شخص ستارہ ہے، بلکہ ہر شخص کا ایک ستارہ ہے!) کائنات کا مطالعہ اور کچھ حد تک کلامِ الٰہی یا خدا کے کلام کے علم نے ان کے سفر کو آگے بڑھایا۔ ان کا مقصد وہ نیا بادشاہ تھا جسے وہ سجدہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ ستاروں کی طرف دیکھتے، خود سے آگے، ان نبیوں کی سرگوشی سنتے جو اْن کے لیے ناواقف تھے۔
ہیرودیس کی کہانی کیسی ہے؟ ہیرودیس کی طرف سے کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ اْسے کیوں حرکت کرنی چاہیے تھی؟ اْس کے پاس طاقت تھی۔ طاقت نے اْسے بوجھل بنایا، جس کی وجہ سے حرکت کرنا مشکل تھا۔ اْسے خود حرکت کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن وہ دوسروں کو حرکت دیتا رہا۔ وہ اپنی طاقت کو مستحکم اور غیر متزلزل رکھنا چاہتا تھا۔ نئے بادشاہ کی تلاش کبھی اس کے ذہن میں نہیں آئی۔ آخرکار، وہ بادشاہ تھا۔ اگر ہیرود یس نے کسی سفر میں حصہ لیا ہوتا، تو وہ سفر اپنے لیے ہوتا۔ لیکن حقیقت میں یہ حرکت نہیں بلکہ رکاؤٹ، سست زوال اور موت کی طرف تھا۔ صرف اپنے آپ کی طرف دیکھتے ہوئے، وہ کائنات کے لیے اندھا اور کلامِ الٰہی کے لیے بہرا بن گیا۔
بہنوں اور بھائیوں! کیا ہم اب بھی ستاروں، آسمانوں، پہاڑوں، درختوں، ندیوں اور لوگوں کو دیکھتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس دیکھنے، سمجھنے اور سننے کا وقت ہے؟ کیا ہم واقعی یہ کوشش کرتے ہیں یا ہم صرف اپنے الیکٹرانک آلات اور ذاتی فکر میں مصروف ہیں؟ اور اگر ہم تخلیق کو دیکھنے کی کوشش کریں، تو کیا ہم ستارے بھی دیکھ پائیں گے یا وہ دھوئیں اور آلودگی سے مدھم ہو چکے ہیں؟ کیا ابھی بھی دیکھنے کے لیے درخت، پہاڑ اور دریا موجود ہیں یا صرف جھوٹی سلطنت کے یادگار ہیں جو ترقی اور خوشحالی کا وعدہ کرتے ہیں مگر بدعنوانی کے ذریعے موت لاتے ہیں؟ بغیر تخلیق کے، ہم کیسے حقیقی خالق اور کائنات کے بادشاہ کی موجودگی کو پہچان سکتے ہیں؟
دوسرا پہلو: مجوسیوں کی زیارت میں اْن کی لاعلمی کو قبول کرنا بھی شامل تھا۔ صرف ستاروں کا مطالعہ اور مبہم نبوی بیانات کافی نہیں تھے۔ اس لیے وہ یروشلم گئے، جو دیندار یہودیوں کے لیے زیارت کا مقدس مقام تھا۔ مجوسیوں کے سفرِ اْمید میں عاجزی، دوسروں سے سیکھنے کی آمادگی اور سیکھایا جانے کی ضرورت تھی۔ اگر ان کا مقصد نئے بادشاہ تک پہنچنا تھا جیسا کہ پیشگوئی کی گئی تھی، تو یروشلم سے بہتر جگہ کوئی نہیں تھی، جو اعلیٰ کاہنوں، صحافیوں اور دیگر مذہبی تحریکوں جیسے فریسیوں اور صدوقیوں کا مسکن تھا۔مجوسی، جنہیں اکثر عاقل لوگ کہا جاتا ہے، مشورے لینے اور سننے والے لوگ تھے۔ حقیقی حکمت اْن میں نہیں ہے جو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ سب کچھ پہلے سے جانتے ہیں۔ دوستو، کیا آپ روحانی گفتگو اور سنڈ کی بازگشت سنتے ہیں؟
ہیرودیس، اس کے شاہی دربار اور شہر کا کیا حال ہے؟ ہیرودیس ماہرین سے گھرِا ہوا تھا جو یقیناً شریعت اور نبیوں کو جانتے تھے، مگر جو کچھ وہ جانتے تھے اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ یہ غیر متحرک ہونے کی ایک اور مثال ہے۔
ہمارے وقت میں، ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں چرچ کے انتظام میں شفافیت اور جوابدہی سیکھانے والے تربیتی پروگرام ملے ہیں۔ لیکن اکثر میں سوچتا ہوں کہ آیا یہ پروگرام رْوح القدس کے مختلف تحائف کو صحیح طور پر استعمال کرنا بھی سیکھاتے ہیں؟ تحائف ضائع ہو جاتے ہیں جب انہیں نظرانداز یا غیر ترقی یافتہ چھوڑ دیا جائے۔ مگر یہ بھی ضائع ہوتے ہیں اگر انہیں اس مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے جس کے لیے روح القدس نے انہیں دیا ہے۔ ہیرودیس کی کہانی میں، اس نے ماہرین کو صرف اس وقت بلایا جب طاقت کے ڈھانچے کو خطرہ ہوا۔ لیکن روح القدس کے تحائف پورے جسم کو مضبوط بنانے کے لیے ہیں، عام بھلائی کے لیے، نہ کہ ہیرود اور اس کے کئی پیروکاروں کے کیریئر اور خواہشات کو بڑھانے کے لیے۔
تیسرا پہلو: اعلیٰ کاہنوں اور صحافیوں سے ہیرود یس اور مجوسیوں نے سیکھا کہ مسیح یہودیہ کے بیت اللحم میں پیدا ہونے والا ہے۔ مجوسیوں نے فوراً اس معلومات پر عمل کیا۔ وہ ستارے کی رہنمائی میں اپنی زیارت دوبارہ شروع کیے، نبوی کلام کے یقین کے ساتھ۔ جب وہ اس مقام پر پہنچے جہاں بچہ بادشاہ تھا، وہ خوش ہوئے، اس کو سجدہ کیا اور اسے وہ تحائف دیے جو ایک بادشاہ کے لیے مناسب تھے جو دْکھ سہے گا۔ مجوسی خود نبی بن گئے۔ اپنی عبادت اور خراجِ تحسین کے ذریعے، انہوں نے ثابت کیا کہ
یسوع سب لوگوں کے لیے خدا کا تحفہ ہے۔ وہ سب کے لیے خوشی اور تسلی ہیں۔ وہ سب کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ مجوسی نئے بادشاہ کی کھلی بانہوں کی گواہی دے سکتے ہیں۔
ہیرودیس کا کیا حال ہوا؟ اْسے یقیناً صدمہ پہنچا کہ حقیقت میں یہودیوں کا نیا بادشاہ پیدا ہوا۔ شاید اتنا ہی حیران کن یہ تھا کہ وہ بیت اللحم میں پیدا ہوا، نہ کہ شاہی یروشلیم میں! پیشگوئی کی تکمیل کو خوشی سے قبول کرنے کی بجائے، ہیرودیس اور یروشلیم پریشان ہو گئے۔ ہیرودیس نے ایک منصوبہ بنایا جس سے مجوسیوں کو نئے بادشاہ کے وجود کی تصدیق کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ مگر اس کا مقصد واضح تھا: نئے بادشاہ کو قتل کرنا۔ اْس کی عدم تحفظ، بے چینی اور خوف نے بیت الحم اور آس پاس کے دیہاتوں میں شیرخوار بچوں کی موت میں سازشی کمیونٹی پیدا کی۔ ان کی ماؤں کے دل بھی ان کے بیٹوں کی ہولناک موت سے زخمی ہوئے۔ اس سب کا مقصد ہیرود یس کی سلطنت اور یروشیلم پر قبضہ برقرار رکھنا تھا۔
ہماری دنیا میں بھی، مایوسی یا نااْمیدی کبھی کبھار معصوم لوگوں، بچوں، ماؤں اور دیہاتوں کے قتل کی طرف لے جاتی ہے۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، جو تعلیم، رابطہ اور سماجی تبدیلی کے لیے بہت ممکنہ ہیں، ان کے ذریعے کچھ لوگ دوسروں کی شہرت خراب کرنے، شناخت چوری کرنے، جھوٹ پھیلانے اور خودغرضانہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ نا اْمید لوگ خوش نہیں ہوتے۔ وہ خوشی نہیں پھیلائیں گے اور دوسروں کی خوشی برداشت نہیں کریں گے۔ ہم ہیرودیس اور اس کے ہم عصر ساتھیوں کو دعوت دیتے ہیں: اپنے فریب دہ یروشیلم سے باہر نکلیں۔ غریب بیت الحم میں بہت حکمت اور خوشی ہے جسے آپ نے نظر انداز یا حقیر سمجھا۔
میں اب ایک سوال کے ساتھ اختتام کرتا ہوں: مجوسی کتنے تھے؟ ہم عموماً تین کہتے ہیں۔ لیکن متی کی انجیل میں ایسا نہیں لکھا۔ وہاں تین تحائف تھے۔ ہوسکتا ہے صرف دو مجوسی ہوں۔ لیکن میں مخلصی سے سوچتا ہوں کہ ان سے زیادہ مجوسی تھے۔ میرا خواب ہے کہ ہر دور میں سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں اور بے شمار مجوسی ہوں، یہاں موجود مندوبین اور ہماری خدمت کرنے والی جماعتیں بھی شامل ہیں، جتنے کہ ستارے ہیں! ہمیں دنیا میں زیادہ مجوسی بطور زائرین چاہیے اور کم ہیرودیس۔
چند ماہ پہلے، میں ایک بین المذہبی تقریب میں ایک ملک میں گیا، جس کا نام میں نہیں لوں گا۔ زیادہ تر شرکاء کو ایک بڑے ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ دوسرے دن کی صبح، منتظمین نے مجھے بتایا کہ میں صدر مقام میں سربراہِ ریاست سے ملاقات کے لیے ایک وفد کا حصہ ہوں اور مجھے ایک مقررہ وقت پر لابی میں تیار رہنا چاہیے تاکہ ایک نجی گاڑی مجھے لے جائے۔ اچانک حیرت میں، میں نے جلدی سے کمرے میں تیاری کی اور لابی کی طرف دوڑا۔ دوڑتے ہوئے میں کئی غلط موڑ لے بیٹھا۔ مجھے لگا کہ میں لابی سے دور جا رہا ہوں۔ میں نے ایک عورت کی آواز سنی: اے میرے خدا! اے میرے خدا!وہ تکلیف میں لگ رہی تھی، تو
میں رْکا، اور اْس کی طرف مڑا اور پوچھا: کیا آپ ٹھیک ہیں، میڈم؟وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگی: اے میرے خدا! کیا یہ آپ ہیں؟ کارڈینل تاگلے؟
میں نے ڈرتے ہوئے جواب دیا: ہاں، میں لابی تلاش کر رہا ہوں۔اْس نے کہا: اوہ! میں نے آپ کو صرف یوٹیوب پر دیکھا۔ اب میں آپ کو حقیقی میں دیکھ رہی ہوں! میرے کام کی وجہ سے، میں ہر اتوارپاک ماس میں نہیں جا سکتی، لیکن میں آپ کی تعلیمات اور مطالعے سنتی اور دیکھتی ہوں تاکہ دْعا کر سکوں۔ شکریہ کارڈینل۔ کیا آپ مجھے برکت دے سکتے ہیں؟میں نے ہاں کہا۔ وہ فلپائن سے تھی۔ جب میں نے اْس پر دْعا کی، وہ بہت رونے لگی۔ دْعا کے بعد اْس نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ سیلفی لے سکتی ہوں؟میں نے ہاں کہا۔ پھر اْس نے کہا: کیا میں دوسری عورت کو بھی بلا سکتی ہوں تاکہ آپ اسے بھی برکت دیں؟
اس دوران، میں نے محسوس کیا کہ میں گم نہیں ہوا۔ یسوع مجھے اس راستے پر لے آئے۔ میں نے انہیں دو عظیم خواتین میں پایا، صبر اور اْمید کی مہاجر مزدور۔ حقیقت میں میں ریاست کے سربراہ سے ملاقات بھول گیا۔ ایک مختلف راستہ کھل گیا۔
میں نے پہلے کہا تھا کہ مجوسیوں کی کہانی بنیادی طور پر یسوع کی کہانی ہے۔ یسوع نے ایک مختلف راستہ اختیار کیا۔ یسوع نے مجوسیوں کو مختلف راستہ اختیار کرنے کی رہنمائی کی۔ یسوع نے ہیرود یس کے راستے سے مختلف راستہ چنا۔اْس نے انسان کی کمزوری کو گلے لگانے کے لیے خود کو خالی کیا۔ وہ ایک غریب بچے کے طور پر بطورچرنی میں پیدا ہوئے۔
مگر یاد رکھیں، وہ راہ، حق اور زندگی ہے۔ وہ ستارہ ہے۔ وہ ہمارا مقصد ہے۔ وہی ہماری اْمیدہے! آئیے یسوع کی زیارت میں شامل ہوں!