ہمیشہ وعدہ وفا کرو!
ایک رات کسی جنگل میں بڑی تیز ہوا چل رہی تھی۔ ایک چھوٹی سی فاختہ اس بات سے پریشان سی تھی کہ کہیں اس کا گھونسلہ ٹوٹ نہ جائے۔ اب صبح ہوئی تو بارش ہونے لگی۔ فاختہ کے بچے بھوکے بھی تھے اور اسے اْن کے لیے کھانا لینے جانا تھا۔پھر اس نے سوچا، ساتھ والے طوطے سے کہہ دیتی ہوں کہ میرے گھر کا خیال رکھے۔ تیز ہوا اور بارش سے کہیں گھونسلہ گرِ نہ جائے۔وہ طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی۔
پیارے بھائی! میں کھانا لینے جارہی ہوں۔ کیا آپ میرے گھر کا خیال رکھیں گے؟ میں کوشش کروں گی کہ جلدی واپس آسکوں۔
طوطے میاں ابھی ابھی سو کر اْٹھے ہی تھے، انہوں نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ آپ جائیں میں آپ کے گھر کے پاس ہی بیٹھ جاتا ہوں۔یہ کہہ کر وہ اْڑے اور فاختہ کے گھونسلے کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔
اوہ پیارے طوطے! آپ بہت اچھے ہو! فاختہ نے خوشی سے کہا اور اْڑ گئی۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ طوطے میاں کو مزیدار سی خوشبو آنے لگی۔ یہ خوشبو دو تین درخت چھوڑ کر امرود کے درخت سے آرہی تھی۔
لگتا ہے امرود پک گئے ہیں۔ بی فاختہ پتہ نہیں کب واپس آئے۔میں ذرا امرود کے درخت سے ہو آؤں۔ویسے بھی بارش تو رْک گئی ہے۔
طوطے میاں نے اِدھر ْادھر دیکھ کرسوچا اور اْڑ کر امرود کے درخت پر جا بیٹھے۔ امرود کے درخت پر بڑے مزیدار اور میٹھے امرود لگے ہوئے تھے۔
ارے واہ! اتنے مزیدار! طوطے میاں نے ایک امرود کو چونچ ماری اور خوشی سے کھاتے رہے۔
وہ کافی دیر امرود کھاتے رہے۔ بارش پھر سے شروع ہو گئی تھی لیکن طوطے میاں کو بالکل یاد نہیں تھا کہ انہوں نے فاختہ کے گھر کا خیال رکھنا تھا۔
جب فاختہ واپس آئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کا گھونسلہ ٹوٹ کر بہہ چکا تھا۔ اس کے دونوں بچے ایک بڑے سے پتے کے نیچے اداس اور پریشان بیٹھے تھے۔
اوہ! میرے پیارے بچو! مجھے معاف کر دینا۔ مجھے دیر ہو گئی۔
کوئی بات نہیں امی جان! دونوں بچوں نے کہا۔
پھر ان تینوں نے کھانا کھایا اور پھر سے گھونسلہ بنانے کی تیاری کرنے لگے۔
اب میں طوطے میاں سے کبھی بات نہیں کروں گی۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی اتنی سی دیر میرا انتظار نہیں کر سکے۔ کہہ تو رہے تھے کہ خیال رکھوں گا لیکن۔۔۔فاختہ گھونسلہ بناتے ہوئے ناراضگی سے سوچ رہی تھی۔
اتنی دیر میں طوطے میاں واپس چلے آئے۔ جب وہ اپنے گھر جانے لگے تو انہیں یاد آیا۔
اوہ میں نے تو بی فاختہ کے گھونسلے کا خیال رکھنا تھا! ارے مجھے تو بھول ہی گیا۔
وہ جلدی سے واپس مڑے اور فاختہ کے گھونسلے کی طرف اْڑ گئے۔
مجھے معاف کر دو بی فاختہ! مجھے بھوک لگ گئی تھی اور میں امرود کھانے اْڑ گیا۔ طوطے میاں نے سر جھکائے شرمندگی سے کہا۔
آپ نے اچھا نہیں کیا طوطے بھائی! میرا سارا گھونسلہ پانی میں بہہ گیا ہے۔بی فاختہ نے اْداسی سے کہا۔
فکر نہ کرو۔ میں آپ کا گھونسلہ بنانے میں مدد کرتا ہوں۔سارا دن طوطے میاں نے فاختہ کے ساتھ مل کر اس کا گھر بنوایا۔امرود کے درخت سے خوشبو آتی رہی لیکن طوطے میاں اپنے کئے پر اتنے شرمندہ تھے کہ پھر کئی دن تک امرود کھانے نہ گئے۔
پیارے بچو!اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر آپ کسی سے کہہ دیں کہ میں یہ کام کروں گا تو پھر اس کو پورا بھی کریں۔ اس میں لاپرواہی نہ کریں۔ اگر آپ وہ کام پورا نہیں کرتے تو خدا ناراض ہوتا ہے اور ہمیں اْس انسان کے سامنے شرمندہ بھی ہونا پڑتا ہے۔