نوجوان معاشرے کی ترقی کے قائد
ماہرین عمرانیات کے مطابق انسانوں کو تین درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔(۱)بچے، (۲)نوجوان اور (۳) بوڑھے
کسی بھی معاشرے میں ترقی کا باعث ہمیشہ نوجوان ہوتے ہیں جبکہ بچے اور بوڑھے ان کے زیر کفالت ہوتے ہیں۔یہی وہ طبقہ ہے جو معاشرے کی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ اگر نوجوانوں کا کردار مثبت ہو تو ملک و قوم ترقی کی منزلیں طے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اگر نوجوانوں کا کردار منفی ہو تو معاشرہ ٹوٹ پھوٹ اور جہالت کا شکار ہوجاتا ہے۔ نوجوانوں کے منفی اور مثبت کردار میں ان کی تربیت کا اہم کردار ہے اگر آج کے بچوں کی تعلیم و تربیت اچھی کریں گے تو ان کی صلاحیتوں کو اچھے سے جان سکیں گے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے اچھے موقع فراہم کر سکیں گے۔ مثال کے طور پر ہم کوئی پھل دار درخت لگاتے ہیں تو اس کو وقت پر پانی بھی دیتے ہیں۔ اس کے گرد بار بھی لگاتے ہیں اور اس کے لئے مناسب روشنی و ہوا کا بھی انتظام کرتے ہیں۔ تاکہ جب وہ درخت بڑا ہو تو میٹھا پھل دے۔اگر ہم اس کی مناسب پرورش نہ کریں تو وہ جوان ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم اس کے میٹھے پھل سے محروم ہو جائیں گے۔ اس سے ثابت ہوا کہ آج کے بچے کل کے نوجوان ہیں اور معاشرے کی باگ دوڑ ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔ کسی دانشور کا کہنا ہے کہ جب آدمی زندگی میں دلچسپی چھوڑ دیتا ہے تو وہ بوڑھا ہو جاتا ہے چاہے اس کی عمر 18 سال کی ہی کیوں نہ ہو۔آج کل نوجوان زندگی میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہا اس کے کئی عوامل ہیں یہ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی کڑی نگرانی کریں۔ اْن کو زندگی کا مقصد بتائیں خاندانی زندگی سے لے کر ملک و قوم کی ترقی تک انہوں نے ہی اہم کردار ادا کرنا ہے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ترقی کا آغاز اپنی ذات سے کرنا شروع کریں جس شعبے سے منسلک ہونا چاہتے ہیں جس شعبے میں آپ ہیں اس میں اپنی ایک الگ مسیحی پہچان بنائیں۔کیونکہ پہچان ہمیشہ اچھی کارکردگی کی وجہ سے ، اچھے کرداراور اچھے اخلاق کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگر ہماری کلیسیا کے نوجوان اپنے شعبے کے لحاظ سے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کی اپنی نیک نامی کے علاوہ اس کے خاندان والوں کا بھی سر فخر سے بلند ہوتا ہے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے ہم ایک اقلیت سمجھے جاتے ہیں اگر ہمارے نوجوان تعلیمی لحاظ سے ترقی کریں گے تو ہر شعبہ زندگی میں ترقی کر سکیں گے۔ہم محنت اور لگن کی بدولت ہی اپنی مسیحی پہچان بنا سکیں گے۔ پوری دنیا میں اب تک جتنی بھی مذہب یا سیاسی تحریک چلی آئی ہیں ان میں نوجوانوں کا کردار بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر نوجوان ان تحریکوں میں حصہ نہ لیتے تو آج دنیا کانقشہ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے اتنا واضح نہ ہوتا جتنا آج نظر آرہا ہے۔ اس لئے ہماری کلیسا کے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں مثبت کاموں میں خرچ کریں اور بری صحبت اور برے لوگوں سے دور رہنے کی کوشش کریں اور حکمت ودانائی سے سیکھیں۔ کیوں کہتے ہیں کہ دعا ایسے کرو جیسے کہ سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن محنت اس طرح سے کرو جیسے کہ سب کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اور اب یہ آپ کس طرح محنت کرتے ہیں؟ آپ زندگی میں کونسی فیلڈ سلیکٹ کرتے ہیں اور کس طرح زندگی میں کامیاب ہوکر اپنے ملک و قوم کے لئے فخر کا باعث بنتے ہیں۔