بارش کا رکھوالا مگرمچھ

بہت پرانی بات ہے، ایک گاؤں میں ندی بہتی تھی۔ وہاں ایک بڑا مگرمچھ بھی رہتا تھا۔یہ مگرمچھ کوئی عام نہیں تھا۔ ناصرف اِس کی جلد دھوپ میں سونے جیسی چمکتی بلکہ اِس کی آنکھیں بھی چمک جاتیں۔ یہ مگرمچھ اْسی ندی کے نی میں رہتا تھا، جو اْس علاقے کی زندگی تھی۔ یہ مگرمچھ صرف ایک طاقتور جانور نہیں تھا بلکہ بارش کا رکھوالا بھی تھا۔
ہر سال جب زمین خشک ہو جاتی اور لوگ پانی کے لیے پیاسے ہوتے، تو گاؤں کے بڑے بوڑھے ندی کے کنارے پْرانے گیت گاتے، ندی میں کچھ چیزیں ڈالتے، پھل اور شہد پیش کرتے تھے۔ پھر، یہ مگرمچھ ندی سے باہر آتا، اْن کی بات سنتا، اور فیصلہ کرتا کہ بارش کب آئے گی۔ مگر ایک دن سب کچھ بدل گیا۔
ایک سال، بارش نہیں ہوئی۔ کھیت سوکھ گئے، ندیاں خشک ہو گئیں اور لوگ پریشان ہونے لگے۔ جب وہ ندی پر جمع ہوئے تو مگرمچھ باہر آیا۔ وہ پہلے سے بڑا اور زیادہ غرور والا لگ رہا تھا۔ اس نے نہ کوئی آواز نکالی، نہ مسکرایا، اور نہ ہی سر ہلایا۔ اس نے بس اپنی آنکھیں اْوپر کیں اور کہا:
تمہیں بارش چاہیے؟ مجھے سونا لا کر دو۔
بزرگ حیران رہ گئے۔ سونا؟ یہ تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
ایک بوڑھی عورت، جس کے بال سفید تھے اور وہ عمر کی وجہ سے جھکی ہوئی تھی۔ آگے بڑھی اور مگرمچھ سے کہا:بارش تمہاری نہیں ہے کہ تم اسے بیچو۔ یہ سب کی ہے۔ تمہیں اسے بیچنے کے لیے نہیں بلکہ اس کی حفاظت کے لیے چنا گیا تھا۔یہ سنتے ہی سمگرمچھ ایسی آواز سے ہنسا کہ جس سے ندی بھی کانپ اْٹھی۔
پھر اْس نے بوڑھی عورت سے کہا دنیا بدل گئی ہے اور مجھے بھی بدلنا ہوگا۔ اب بارش کی قیمت ہے۔ اگر تمہیں چاہیے، تو پیسے دو۔لوگ غمزدہ دل کے ساتھ واپس چلے گئے۔ کچھ نے غاروں میں اور درختوں کے نیچے سونا ڈھونڈنے کی کوشش کی، لیکن وہ غریب کسان تھے۔ جلد ہی، پانی کی کمی پورے علاقے میں پھیل گئی۔ جانور مرنے لگے، بچے رونے لگے، اور آسمان پھر بھی خشک رہا۔
پھر ایک چھوٹی لڑکی آئی۔وہ صرف تیرہ سال کی تھی، جس کی آنکھیں روشن اور قدم مضبوط تھے۔ اس نے اپنی ماں کو روتے ہوئے اور اپنے چھوٹے بھائی کو پیاس سے کمزور ہوتے دیکھا۔ اس کے پاس سونا نہیں تھا، مگر اْس کے پاس ہمت تھی۔
لڑکی گاؤں کے بڑوں کے پاس گئی اور کہا:میں مگرمچھ سے بات کروں گی۔
وہ سب بچی کی اِس بات پرپیار سے مسکرا دئیے۔اور بولے بیٹی، وہ خطرناک ہے۔ وہ اب وہ مگرمچھ نہیں رہا جسے ہم جانتے تھے۔
اْس نے جواب دیا:تو اسی لیے مجھے جانا چاہیے۔
اْس کے پاس ایک چھوٹا سا ڈھول اور بیجوں کی ایک تھیلی تھی۔لڑکی ننگے پاؤں ندی کی طرف چلی۔وہ خشک کنارے پر کھڑی ہو گئی، ہوا اْس کی پرانی قمیض کو ہلا رہی تھی اور اْس نے گانا شروع کیا۔ اْس کی آواز پتلی اور کانپتی ہوئی تھی لیکن گیت بہت پرانا تھا۔ وہ ایسا گیت تھا جو پہلے زمانے کے لوگ بارش کیلئے گاتے تھے۔
اس گیت سے ندی میں حرکت ہوئی۔ آہستہ آہستہ، مگرمچھ باہر آیا،اور بڑے غرور سے بولا: کوئی اور بھیک مانگنے آیا ہے؟
لڑکی نے کہا: نہیں میں تمہیں یاد دلانے آئی ہوں۔
مگرمچھ نے آنکھیں جھپکیں،مجھے کیا یاد دلانے آئی ہو، چھوٹی مچھلی؟
لڑکی بولی یہی یاد دلانے آئی ہوں کہ تم کون ہو۔ تمہیں تمہارے دانتوں کی وجہ سے نہیں، بلکہ عقلمندی کی وجہ سے چنا گیا تھا۔ آسمان نے تم پر بھروسہ کیا، زمین نے تم پر بھروسہ کیا، اور ہم نے بھی۔
مگرمچھ کے نتھنے پھول گئے۔ وہ بولا:میں اِن لوگوں کی خدمت کرتے کرتے تھک گیا تھا جو بدلے میں کچھ نہیں دیتے۔ تم مجھے لالچی کہتی ہو، لیکن کیا پیسے مانگنا غلط ہے؟
لڑکی قریب آئی۔ اس کے پاؤں ندی کے کنارے کو چھو رہے تھے۔وہ کہنے لگی یہ غلط ہے کہ جب تمہاری طاقت ایک جیل بن جائے۔ اب تم بارش کو قیدی کی طرح رکھتے ہو؟درخت مر رہے ہیں، پرندے اْڑ گئے ہیں۔ جب سب کچھ ختم ہو جائے گا تو تم کس کی حفاظت کرو گے؟
یہ سْن کر مگرمچھ نے کچھ نہیں کہا۔
اْس نے اپنے بڑے منہ کو کھولا اور پانی کا ایک چھینٹا مارا جس سے لڑکی پیچھے گرِ گئی۔ لیکن پھر کھڑی ہو گئی۔ اس کا چھوٹا ڈھول خراب ہو چکا تھا، لیکن اس کا حوصلہ نہیں۔پھر اْس نے آہستہ سے کہا:جو کرنا ہے کرو۔مگر میں تمہیں یاد دلاتی رہوں گی۔ لوگ اب تم سے ڈرتے ہوں گے، لیکن وہ یاد رکھیں گے۔ اور یاد رکھنا سونے رکھنے کی طاقت سے زیادہ طاقتور ہے۔
مگرمچھ نے اْسے دیر تک دیکھا، پھر بغیر کچھ کہے پانی میں واپس چلا گیا۔
دن گزر گئے۔ پھر کئی ہفتے اور پھر ایک عجیب بات ہوئی۔
جانور ندی پر جمع ہونے لگے۔ پہلے ہاتھی آئے، پھر ہرن، چیتے، بندر، یہاں تک کمزور جانوربھی۔ سب بغیر لڑے، بغیر شور کیے کھڑے تھے۔ وہ بس ندی میں دیکھتے ہوئے انتظار کرتے رہے۔
لوگوں نے یہ دیکھا۔بوڑھی عورت ندی پر واپس آئی اور جانوروں کو دیکھا۔ وہ حیران رہ گئیں۔ یہ ایک نشانی تھی۔اْس نے کہا فطرت کو سب یاد ہے اور اب وہ  انتظار کر رہی ہے۔اس رات، بادل جمع ہونے لگے۔ نہ کوئی گیت، نہ کوئی التجا۔ بس انتظار کرتی ہوئی گہری خاموشی۔مگرمچھ پھر اوپر آیا۔
اس بار، اس کی آنکھیں کم روشن تھیں۔ وہ تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ اور جب وہ بولا، تو اس کی آواز میں غرور نہیں تھا۔وہ بولا:دیکھووہ آ گئے ہیں نہ مانگنے، نہ پیسے دینے بلکہ دیکھنے۔
اْس نے آسمان کی طرف دیکھا۔حتیٰ کہ بارش بھی اب مجھے دیکھ رہی ہے۔لڑکی نے پھر اپنی ہتھیلی آگے بڑھائی۔تم اب بھی فیصلہ کر سکتے ہو۔ بارش کو پھر سے آزاد ہونے دو۔مگرمچھ نے اْس کے چھوٹے ہاتھ کو دیکھا۔اس کے بعد جانوروں اور آسمان کو بھی۔اور وہ دھاڑا۔یہ غصے کا دھاڑ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی آواز جس نے بادلوں کو پھاڑ دیا۔ بجلی آسمان پر ناچی اور پھر — بارش۔
بہت تیز اور لگاتار۔ یہ زمین پر برسی، ندیوں کو بھر دیا، درختوں کو سیراب کیا، اور ہزاروں لوگوں کے چہروں سے آنسو دھوئے۔اس دن سے، مگرمچھ بدل گیا۔وہ اب بھی ندی کی حفاظت کرتا تھا، مگر اب لوگوں سے نہیں، بلکہ لوگوں کے لیے۔ جب دوسرے پانی کو روکنے کی کوشش کرتے، تو وہ انہیں بھگا دیتا۔ جب پھر خشک سالی کا خطرہ ہوتا، تو وہ اپنی دھاڑ سے آسمان کو یاد دلاتا۔
اور لڑکی؟ وہ ایک عظیم بزرگ عورت بنی۔ لوگ اْسے ایسی کے نام سے جانتے تھے جس نے بارش کو جگایا۔جب وہ بوڑھی اور سفید بالوں والی ہو گئی، تب بھی وہ ندی کے کنارے بیٹھتی اور بچوں کو بتاتی:
کہ طاقت کو اپنے پاس روکنا نہیں  بلکہ اس کا استعمال دوسروں کی بھلائی کیلئے کرنا ہو نا چاہیے۔
یہ کہا نی ہمیں بھی سکھاتی ہے کہ حقیقی طاقت دوسروں کی مدد کرتی ہے۔ جب طاقت صرف اپنے لیے استعمال کی جائے، تو فطرت بھی اْسے ٹھیک کرنے کے لیے اْٹھ کھڑی ہوتی ہے۔اس اپنے اختیا ر کو ہمیشہ بھلائی اور اچھائی کیلئے استعمال کرنا چاہئیے۔

Daily Program

Livesteam thumbnail