نوجوان اور مذہب


نوجوان خدا کی طرف سے عطیہ ہیں۔کسی بھی مذہب یا قوم کا قیمتی سرمایہ اور امانت ہیں۔ نوجوان کا کلیسیاء کے ساتھ وہی رشتہ ہے جو ماں کا بیٹے سے ہوتا ہے۔ نوجوان ہر معاشرے کی طاقت ہیں۔ یہ معاشرے کے نظام کو تراش خراش کر بدل سکتے ہیں۔ نوجوانوں نے ہمیشہ اپنی بہادری کا لوہا منوایا ہے۔ انسانی کردار میں عظمت کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ کلامِ مقدس میں ہمیں نوجوان رہنماؤں کا بھی ذکرملتا ہے جو اپنے مذہب اپنی قوم کے لئے وقت پڑنے پر دیوار بن جایا کرتے ہیں۔ موسی جیسا نوجوان رہنما جب فرعون سے ٹکرایا تو سارے مصر میں ہلچل مچ گئی۔ یوحنا اصطباغی کسی امیر کبیر سے نہیں ڈرتا تھا اور خود ہمارے منجی دو عالم نے سولی پرمرنا قبول کیا مگر جابر قوتوں کے سامنے نہیں جھکے۔رسول جو رومیوں کے ڈر اور خوف سے دروازہ بند کئے ہوئے بیٹھے تھے جب ان کو روح القدس کی آگاہی ملتی ہے تو وہی رسول اپنے سروں پر کفن باندھ کر نکلتے ہیں اور یروشلم سے نکل کر روم تک جا پہنچتے ہیں۔ روم شہر میں نوجوان شہید وں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کیے اور ان کے بدن موم کی طرح جل اٹھے تھے۔ وہ مسیحی محبت اور مذہبی جوش و جذبے سے اس قدر سرشار تھے کہ انہوں نے اپنے ایمان کو سنبھالے رکھا اور ساتھیوں کو بھی یہی درس دیا جرات اور قربانی کا درس وہ تہہ خانوں میں اتر کر ایک دوسرے کو ایمان کی تقویت دیتے تھے۔ ان نوجوانوں کی زندگی میں ایسے ہزاروں واقعات پیش آئے لیکن وہ ہر حال میں اپنے نجات دہندہ کے مشن کو لے کر آگے بڑھتے ہی گئے۔ آج کے موجودہ دور میں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ نوجوان ہوتے ہوئے میں اپنے مذہب کے لیے کیا کردار ادا کر رہا ہوں؟ آج کل کے نوجوانوں مایوسی کا شکار ہیں۔ آج کا نوجوان خود کو آزاد سمجھتا ہے لیکن اخلاقی اور مذہبی طور پر معذور ہو کر رہ گیا ہے۔ اپنی ہر چیز داؤ پر لگانے کو تیار ہے چاہے وہ اس کا مذہب ہی کیوں نہ ہو۔ اس جدید دور میں نوجوان نسل کے درمیان تیزی سے روایتی قدروں کی پامالی کے ساتھ ایک دوری پیدا ہو رہی ہے۔ ہمارے نوجوان لڑکے غلط سوسائٹی میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ نشے میں دھت، پان،سگریٹ اور بہت سی سماجی برائیاں ان میں جنم لے رہی ہیں۔ ہمارے نوجوان لڑکے تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے حالانکہ تعلیم آج کی ضرورت ہے۔اگر ہم بھی مضبوط تعلیم یافتہ معاشی طاقت ہوتے تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔ اس کے علاوہ مذہبی ماحول میں مسیحی تعلیم کا فقدان ہے۔جدید دور کے تقاضے بھلا کچھ بھی ہوں لیکن مذہب آج بھی رہنمائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ہمیں ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہمیں دوسرے مذاہب کی اقوام سے واسطہ پڑتا ہے اورجب ہم سے ہمارے ہی مذہب سے متعلق کوئی سوال پوچھا جائے تو لاعلمی کی بدولت ہمیں شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم اکثر اپنے مذہب سے بھی نفرت کرنا شروع کر دیتے ہیں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو چیزیں نہیں آتی اْن کو سیکھا جائے۔ ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جن کی سوچ بلند ہو،جن کی سوچ کا دائرہ کار وسیع ہو، ایسے نوجوان جو مثبت سوچ رکھتے ہیں، بہادر ہوں تو یقینا ایسے نوجوان خدا کی طرف سے میراث ہوتے ہیں۔ نوجوان بچوں کی تربیت ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنا ان کی تعلیم کی نگرانی کرنا ان کے رجحانات کو نظر میں رکھنا والدین کا فرض ہے۔ کیونکہ اگر ہم نے آج اپنے بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تو پھر آنے والا مستقبل سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ آج کا انسان ہجوم میں بھی اکیلا ہے ایک دوسرے سے بیگانہ ہے۔آج کے دور میں ضرورت ہے کہ ایمان میں مضبوط ہوں۔ یہ وقت تجدید کا ہے۔  ایمان میں تڑپ پیدا کرنے کا
وقت ہے۔ دو چیزیں انسان کی تکمیل کرتی ہیں ایک آپ کا اپنا آپ مکمل طور پر آپ کے اختیار میں ہو اور دوسرا یہ کہ آپ اپنے لئے صحیح رویہ چن لو، بہترین کی امید رکھو اور بدترین کے لئے تیار رہو۔وہ انسان کبھی زندگی میں جنگ نہیں ہار سکتا جس کے پاس برداشت کرنے کی ہمت ہو۔جو دوسروں کا درد محسوس کرکے تکلیف پر آنکھ میں آنسو بھر آئے تو واقعی ہی وہ لیڈرشپ کے لائق ہوتا ہے۔ آج کے وقت کی آواز اور تقاضا ہی ایک دوسرے سے خوفزدہ ہونے کے بجائے ایک آواز، ایک قوت بن کر اْبھرنا، ایک دوسرے پر اعتبار کرنا ہے۔ ہمارے مسیحی مذہب میں وہ تمام قدریں موجود ہیں جو ہمیں دوسروں سے منفرد اور سچا بناتی ہیں۔اس لئے ان اقدار کو اپنائیں تاکہ اچھے اور سچے مسیحی بن سکیں۔

Daily Program

Livesteam thumbnail