مسیحیت میں بچوں سے پیار
انجیل مقدس میں خداوند یسوع مسیح نے فرمایا چھوٹے بچوں کو میرے پاس آنے دو کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُنہی کی ہے۔ بچے اپنی معصومیت اور بے ساختہ پن کی بدولت خدا کا جلال ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں ریاکاری اور بناوٹ نہیں ہوتی۔بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔ ان میں پھولوں کی مانند معصومیت اور پاکیزگی ہوتی ہے۔ یہ جھرنے سے بہتے ہوئے شفاف پانی کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر ہم خدا کی بادشاہی میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی بچوں جیسا بننا ہے۔Childish نہیں بلکہChildlike بننا ہے۔
ہمارے ذہن اْجلے اور کشادہ ہونے چاہیے پھر خداوند کا روح ہم میں سرگرم ہوگا۔ مقدسہ مریم پْرتگال کے تین بہن بھائیوں پر ظاہر ہوئی۔ لوردس میں مقدسہ مریم چھوٹی بچی برنادت پر ظاہر ہوئی اور کہا کہ اس پہاڑی کو کھو دو تو یہاں سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلے گا۔ یہ پانی بیماروں کو شفا دے گا۔پیاسوں کی پیاس بجھائے گا۔ مسیحت میں بچوں سے پیار کی یہ خوبصورت داستانیں ہیں۔ مقدس جان پال دوئم نے بچوں کی پا پائی انجمن بنائی ہیں اور جب استحکام کاساکرامنٹ لینے والے بچے اکٹھے ہوتے ہیں۔ گیت گاتے،روزری پڑھتے اور عبادت میں شامل ہوتے ہیں تو اکٹھے ْرہتے ہوئے یہی بچے محبت اور برداشت کے جذبہ کو پروان چڑھاتے ہیں۔ سچی محبت بچوں کے ذہنوں میں جڑ پکڑتی ہے۔ انجیلی اقتدار ان کی روح میں سرایت کرتی ہے تو پھر بچے ساری عمر اِن اقدار کی روشنی میں گزارتے ہیں۔
اگر دنیا سے جنگ ختم کرنی ہے توبچے کی تربیت ایسی کی جانی چاہیے کہ وہ امن کے پیکر بن جائیں۔ ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں پر مبارک باد دیں اورتحائف کا تبادلہ کریں۔دنیا میں امن و ہم آہنگی پھیلانے اور بچوں میں اچھی اقدار منتقل کرنے میں چرچ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان میں تو پچھلے چند سالوں سے یہ نعرہ بھی بلند ہوا ہے۔'' مار نہیں پیار'' جبکہ چرچ تو صدیوں سے بچوں میں پیار بانٹ رہا ہے۔ دوسرے مذاہب کے بچے ہمارے بچوں کے ساتھ پڑھتے ہیں تو اجنبیت کی دیواریں مسمار ہو رہی ہیں۔ محبت کی فضائیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی بچوں کے حقوق کا دن تجویز کر رکھا ہے۔ بچوں کے وفود دوسرے ممالک میں جاتے ہیں۔ یہ محبت کی شمع جلاتے ہیں اور امن کے سفیر بنتے ہیں۔ جس طرح پانی کا کوئی ملک کوئی سرحد نہیں ہوتی۔پہاڑوں سے بہتا ہوا پانی ہر ملک کو سرحد عبور کرتا ہے۔جس طرح سورج کی کرنوں، پھولوں کی خوشبو، پرندوں کی پرواز کو کسی ملک کا پاسپورٹ اور ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی اسی طرح ان بچوں کو بھی کوئی سرحد کوئی ملک کوئی تہذیب و ثقافت نہیں روک سکتی یہ سب کو محبت وعالمگیر دوستی کا پیغام سناتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے بچے ہمارے بچے ہیں۔ ہمارے بچے ان ملکوں کے بچے ہیں۔ یہ مذہب،ثقافت کی حدوں سے نکل جاتے ہیں۔ یہ اپنے قہقوں سے اور اپنی مسکراہٹ سے گھٹن والے ماحول میں بھی خوشیاں بکھیر دیتے ہیں۔ بچے کسی بھی اندھیرے میں روشنی کی کرن کی مانند ہوتے ہیں۔ ہمارے مسیحی تعلیمی اداروں میں تعلیمی خدمات سرانجام دینے والی سسٹرز، برادر ز، اور اس کے علاوہ مذہبی تعلیم دینے والے استاد بچوں کے لیے پیار کی ندیاں بہا رہے ہیں۔ انہی کا نغمہ محبت دائمی ہے۔
والدین بھی ان رہنماؤں کے ساتھ مل کر دن رات محبت کی تعلیم ہر سو پھیلارہے ہیں۔مسیحی تعلیم کی بنیاد ہی محبت ہے۔ بچوں میں محبت عام جاتی ہے۔ اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مسیحی محبت کے ساتھ کچے ذہنوں کی تربیت کی جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ بچے ایک مٹی کی مانند ہوتے ہیں جسے ایک کمہار اپنے طریقے سے گوندھ کر کسی بھی شکل میں ڈھال سکتا ہے۔بچے ایک ایسا کورا کاغذ ہوتے ہیں جس پر ہم جو چاہیں وہ لکھ سکتے ہیں،اس لئے اگر ہم اپنے بچوں کو پیار محبت سلھائیں گے تو وہ یقینا دوسروں سے پیار کرنے والے بنیں گے اوربڑے ہو کر قوم و ملک کے لیے پھل دارثابت ہوں گے۔