قوتِ برداشت امن کی سواری
برداشت ایسی سواری ہے جو ا پنے سوار کو کبھی گِرنے نہیں دیتی
برداشت ایک یو نیو رسل اُصول ہے۔برداشت ایسی دولت ہے جو کہ انسان کی شخصیت کو نکھارتی ہے اور یہی قوتِ برداشت امن کی سواری ہے۔یہ ایسی سواری ہے جو ا پنے سوار کو گِرنے نہیں د یتی۔ اگر قوتِ برداشت نہ ہو تو امن قائم کرنا مشکل ہو جا تا ہے۔ اگر بر داشت نہیں ہے تو امن کے سفر میں دشواری پیش آئے گی۔برداشت یہ ہے کہ انسان دوسروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظرا نداز کرتے ہوئے خود کو امن کی سواری سے اْترنے نہ دیں۔
دوسروں کو معاف کرنے کا جذبہ اپنے ا ندر پیدا کریں۔ معاف کر نے سے انسان کی ا پنی روح بھی پاک ہو جاتی ہے اور قلبی اطمینا ن بھی حاصل ہوتا ہے۔ پھر وہ دوسروں سے عزت لینے کی بجائے عزت دینے کو اپنی تسکین اوروقار سمجھتا ہے۔ وہ تواضع کو اپنا اولین نصب العین بنالیتا ہے۔ تواضع یہ ہے کہ دوسروں کی عزت ِنفس کا احترام کیا جائے۔ قوتِ برداشت ہی انسان کی سب سے بڑی قوت ہے۔جس انسان میں قوت ِبرداشت ذیادہ ہوتی ہے وہ معاشرتی میدانِ عمل میں اتنا ہی ذیادہ مضبوط بن کر سامنے آتا ہے۔ مثال کے طور پر شیر اورہاتھی کو ہی د یکھ لیں دونوں انتہائی بڑے جانور ہیں۔دونوں ایک دوسرے کے لئے دشمن کی حیثیت رکھتے ہیں۔پھر بھی دونوں ایک ساتھ جنگل میں رہتے ہیں۔یہ صرف برداشت کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔چنانچہ جنگلوں میں دیکھا گیا ہے کہ ایک طرف سے ہاتھی آرہا ہو اوردوسری طرف سے شیر گزررہا ہوتو دونوں اپنااپناراستہ بدل کردائیں اور بائیں نکل جاتے ہیں۔اگر وہ اس طرح نہ کریں تو دونوں آپس میں لڑنے لگیں۔یہاں تک کہ دونوں لڑکر تباہ وبر بادہوجائیں۔جوشخص اپنے کام سے کام ر کھتاہو وہ دوسروں کے لئے قابلِ قبول انسان بن جائے گا۔ اپنے کام سے کام کا مطلب اپنے وقت اور اپنی طاقت کو بچانا ہے۔اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہے کہ اپنی خو بیوں اور صلا حیتوں کا مفید استعمال کرسکیں۔قوتِ برداشت کا حامل انسان دوسروں کے کام میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالے گا،دوسروں کے خلاف نہیں بولے گا۔ برداشت امن کی بنیاد ہے اور عدم برداشت فساد کی جڑہے جو کسی بھی قوم،قبیلہ اورنسل کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔غرور اور تکبر ہمیشہ انسان کو عدم برداشت پر آمادہ کرتے ہیں۔ انسان دوسرے انسان کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔وہ دوسروں کی غلطیوں پر آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور ان کو اپنی طاقت کے ذریعے ظلم وستم کا نشانہ بناتا ہے۔آج معاشرے میں عدم برداشت انتہائی خوفناک درجے تک بڑھ گیا ہے۔معمولی باتوں پر ایک دوسرے کی جانی د شمن بن جاتے ہیں۔ہر کوئی دوسرے کے خون کا پیاسابنابیٹھاہے۔کوئی بھی معمولی غلطی بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ہم سوشل اور پرنٹ میڈیا پر ہرروز عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے واقعات سے واقف ہیں کہ معمولی سی تکرار سے نوبت جان لینے تک جاتی ہے۔
کسی دانشور نے کیا خوب کہاہے کہ ”امن کی تمناایک خواب ہی رہے گی جب تک طاقتور کمزور کااحترام کرنے کی تہذیب سے آشنانہیں ہوتا۔“
ہم سڑک پر آئے دن حا د ثات ہوتے ہوئے د یکھتے ہیں۔یہ حادثات بعض اوقات انسانی غفلت سے ہوتے ہیں لیکن زیادہ ترعدم برداشت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔اس کے بعد کا انجام یہ ہوتا ہے کہ انسان منزل پر پہنچنے کی بجائے قبرستان پہنچ جاتاہے یازخمی ہوکر ہسپتال لے جائے جاتے ہیں۔ اس دنیا میں یہی زندگی کا راز ہے کہ ہر ایک کو دوسرے کالحاظ کرنا پڑتا ہے۔ جس طرح ا نسان اپنا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے اسی طرح دوسروں کے مفادات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو جاننے کے ساتھ دوسروں کو بھی جانیں کرتے ہوئے اپنے مقصد کے لئے جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ عدم برداشت کو چھوڑ کر قوتِ
بر دا شت کا دامن تھام لیا جائے تاکہ خود خوش رہتے ہوئے دوسروں میں بھی خوشیاں با نٹ سکیں۔