علم کے موتی
بہت پرانے زمانے کی بات ہے۔کسی ملک کا ایک تاجر تجارت کی غرض سے ایران پہنچا۔اُن دنوں تجارت کا یہ قانون تھا کہ تاجر جس ملک میں تجارت کرنے جاتا،سب سے پہلے وہاں کے بادشاہ سے ملاقات کرتا،اپنا سارا سامانِ تجارت دکھاتا اور اُسکی خوبیوں اور انفرادیت سے آگاہ کرتا۔چنانچہ اُس تاجر کو بھی ایران پہنچتے ہی بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا۔تاجر نے بادشاہ کے حضور تحائف پیش کئے اور پھر مالِ تجارت نکالتے ہوئے ایک ایک چیز کی خوبی بیان کرتے ہوئے دکھانے لگا۔
حضور،یہ پانی سے چلنے والی گھڑی ہے جو میں نے یونان سے خریدی ہے۔یہ قالین ہے جو بغدادسے خریدا ہے اور یہ خالص ریشم کے تار سے بنا ہے۔یہ قلم ملا حظہ فرمائیے جو میں نے جاپان سے بہت مہنگے داموں خریدا ہے۔بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا؛بہت خوب،تمام چیزیں بہت عمدہ نایاب ہیں جو تم نے ایران،یونان اور جاپان سے خریدی ہیں لیکن یہ تو بتاؤ کہ تمہیں ہندوستان میں ہمارے شایانِ شان کوئی چیز نظر آئی۔
تاجر نے بادشاہ کو متاثر کرنے کیلئے کہا:”بادشاہ سلامت یوں تو وہاں پر آپ کے شایانِ شان بہت سی چیزیں تھیں لیکن جو چیز مجھے پسند آئی،اُس کو حاصل کرنے کیلئے مجھے کچھ عرصہ وہاں قیام کرنا پڑتا جبکہ میرے پاس صرف دو دن کا وقت تھا اِس لیے میں وہ نہیں لا سکا۔
بادشاہ نے کہا:بھلا وہ کیا چیز تھی؟تاجر بولا؛جناب وہ ایک موتی ہے اور اُس کی خوبی یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بانٹنے سے بڑھتا ہے۔اُسکو کوئی چُرا بھی نہیں سکتا اور اُس موتی سے بہت سے زیور بھی بنا کر پہنے جا سکتے ہیں۔
بادشاہ تاجر کی اِس بات سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگامیں اُسے ضرور حاصل کرنا چاہتا ہوں۔اُس نے فوراً اپنے ایک خاص وزیر کو مع سامان و سواری اِس ہدایت کے ساتھ رخصت کیا کہ اب وہ موتی لے کر ہی لوٹے۔وزیر اپنے مقصد کیلئے نکل پڑا۔جنگلوں،سمندروں،پہاڑوں اور صحرا ؤں،غرض کہ ہر جگہ کی خاک چھان ماری،وادی وادی گھوما،ہر شخص سے اُس نادرونایاب موتی کے بارے میں پوچھا مگر سب نے یہی کہا کہ ایساکوئی موتی نہیں جو چور ی نہ ہو سکے اور اُس سے بہت سے زیور بھی بن جائیں۔لوگ اُس کی بات سُن کر ہنستے اور کہتے مسافر پاگل ہوگیا ہے۔
یوں کئی مہینے گزر گئے۔نااْمیدی کے سائے گہرے ہونے لگے مگر بادشاہ کے سامنے ناکام لوٹنے کا خوف اُس کو چین نہیں لینے دے رہا تھا۔وزیر نے ہر ممکن کوشش کرلی کہ اُسے کوئی ایساموتی مل جائے لیکن نہ ملا،آخر کار اُس نے واپسی کا ارادہ کرلیا۔
وزیر اپنی ناکامی پر زاروقطارروتا ہوا جنگل سے گزررہا تھا۔رات خاصی ہو چکی تھی اور وہ تھک بھی گیا تھا۔ایک درخت کے پاس
آرام کے ارادے سے لیٹا ہی تھا کہ اُسے ایک روشنی اپنی جانب بڑھتی نظر آئی۔پہلے تو وہ ڈر گیا مگر پھر ایک آواز نے اُس کو حوصلہ دیا۔ارے نوجوان ڈرومت،میں اچھی پری ہوں۔بتاؤتمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے،مدتوں کا تھکا مسافر معلوم ہوتا ہے،بتا میں تیری کیا مدد کروں؟
وزیر نے اپنی داستان سنائی کہ اُسے جس موتی کی تلاش تھی،وہ اُسکو کہیں سے بھی نہیں ملا۔پری وزیر کی بات سن کر بے ساختہ ہنسنے لگی اور بولی:”افسوس کہ تو نے عقل سے کام نہ لیا اور محض ایک موتی کی تلاش میں مہینوں مارا مارا پھرتا رہا“۔
وزیر بولا:”اچھی پری،میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا“۔
پر ی بولی:بھلے آدمی وہ موتی دراصل علم کا موتی ہے لیکن تو اُسکی ظاہری شکل کو تلاش کرتا رہا۔علم تو ایک ایسی شے ہے،جسے ہزاروں نام دئیے جا سکتے ہیں۔کہیں اُسے پھل دار درخت کہتے ہیں تو کبھی سورج سے تشبیہ دیتے ہیں اور اُسے سمندر بھی کہا جاتا ہے لیکن اُسے کوئی چُرا نہیں سکتا۔
”لیکن اِس سے زیور بنانے والی صفت؟“وزیر نے حیرت سے پوچھا
پری نے مسکراتے ہوئے کہا:علم کی بہت سی صفات ہیں۔تم اُس موتی کی صورت کو کیوں تلاش کرتے ہو۔یادرکھو،ہر شے کی تاثیر کا تعلق اُسکے نام سے نہیں بلکہ اُسکی اندرونی خوبیوں سے ہوتا ہے۔
اسی طرح علم بھی ایک نایاب موتی ہے کہ جسے یہ حاصل ہوجائے،وہ اُس سے ایسے ہی سج جاتا ہے جیسے انسان زیور پہن کر سجتا ہے اور اُسے کوئی چرا نہیں سکتا بلکہ یہ تو بانٹنے سے بڑھتا ہے،گھٹتا نہیں ہے۔
وزیر بڑے غور سے پری کی بات سُن رہا تھا اور بالآخر قائل ہوگیا کہ واقعی علم ایک ایسا موتی ہے کہ جس کے پاس ہو،وہ دراصل دنیا کے سب سے قیمتی زیور کا مالک بن جاتا ہے۔
وزیر نے پری کا شکر یہ ادا کیاجس کے بعد اچھی پری وہاں سے غائب ہوگئی۔اب وزیر بہت خوش تھا اور اپنی کامیابی کے گیت گاتااپنے ملک کو روانہ ہوگیا۔وہاں پہنچ کر اُس نے بادشاہ کو علم کے موتی کے بارے میں بتایا اور سمجھایا تو بادشاہ بھی پری کی بات کا قائل ہوگیا کہ صرف علم ہی وہ موتی ہے جسے کوئی چُرا نہیں سکتا۔
پیارے ساتھیو! علم واقعی ایک ایسا موتی ہے جس کی چمک دمک زمین سے آسمان تک ہے۔یہی وہ کمال موتی ہے جو ہمیں فرش سے عرش تک لے جاتا ہے۔ہمیں بْرائی اور اچھائی میں تمیز سیکھا تا ہے۔ ہمیں نہ صرف دنیا میں سرفراز کرتا ہے بلکہ آخرت میں بھی کامیابی دیتا ہے۔علم کے اس موتی ہی کی روشنی میں انسان اس کائنات کے خالق ومالک تک رسائی حاصل کرتا ہے۔اس لئے علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ اپنی زندگی میں کامیاب ہو سکیں۔