سوشل میڈیا اور نوجوان
سوشل میڈیا کو اگر نعمت ِخداوندی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ اس نے زندگی کو آسان بنا دیا ہے۔ اب ہم جہاں بھی ہوں، جو بھی معلومات چا ہیے اِک پل میں ہمیں موصول ہو جاتی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اب اس سے کٹ کر زندگی گزارنا مشکل ہے۔ تو ایسے میں لازم ہے کہ بحیثیت والدین اور اساتذہ ہمیں پوری طرح اس بات کی آگاہی ہونی چاہئے کہ سوشل میڈیا کس طرح چلتا ہے اور اس پر آنے والی معلومات اور مواد کی حقیقت اور سچائی کو کس طرح جانچا جاسکتا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ جو بات اہم ترین ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کی تربیت کرتے وقت ان کو غلط اور صحیح، سچ اور جھوٹ، جائز اور ناجائز کے درمیان فرق کے ساتھ مثبت اور منفی رویوں کی پہچان بھی سکھانی ہوگی۔ پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے دیکھا جارہا ہے کہ سوشل میڈیا کا غیر معمولی استعمال ہورہا ہے اور نوجوان نسل بڑھ چڑھ کر اس کا استعمال کرتے ہیں اور اس سے متاثر ہوتے بھی نظر آرہے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ کوئی بھی نیم خواندہ معاشرہ بآسانی انتہا پسند رویوں کا شکار ہوکر تعمیری سرگرمیوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔آج کل جس طرح سوشل میڈیا عملی طور پر ٹرولز یعنی سوشل میڈیا کے ایسے گمنام یا اپنی اصل شناخت چھپائے ہوئے صارف جن کا مقصد جھوٹ سچ کی آمیزش یا طنز و مزاح کی آڑ میں انتشار پھیلانا ہوتا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ہم سب اس سنگین صورتحال سے آگاہ تو ہیں لیکن عملی طور پر اس معاملے پر کوئی خاص منظم سوچ یا کسی مربوط حکمت عملی کی ترتیب نظر نہیں آرہی۔اس حوالے سے شائد مناسب تجویز یہی ہوسکتی ہے کہ سوشل میڈیا کے مثبت اور قابل قبول استعمال کے حوالے سے معاشرے میں آگاہی کی ضرورت ہے۔جس میں والدین اور اساتذہ کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی باریکیوں سے آگاہ ہونا ہوگا۔ تاکہ وہ اپنی اولاد اور شاگردوں کی تربیت میں اس اہم مگر بڑی حد تک نظرانداز معاملے پر مناسب توجہ دے سکیں۔اس حوالے سے والدین کی اولین اور اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کس عمر میں انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون تک رسائی دینے کا فیصلہ کرتے ہیں پھر، رسائی سے پہلے اور رسائی کے دوران ان کی مناسب بنیادی تربیت اور نگرانی بھی نہایت ضروری ہے، دیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد بنا کسی اعتدال اور رہنمائی کے اپنے قیمتی وقت کا ایک بہت بڑا حصہ انٹرنیٹ/ اسمارٹ فون/سوشل میڈیا پر صرف کررہے ہیں۔جس سے نہ صرف ان کی ذہنی نشوونما اور اخلاق پر گہرے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں بلکہ ان کی جسمانی صحت بھی متاثر ہورہی ہے۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ نوجوان جو ہمارا کل اثاثہ اور سرمایہ ہیں۔ کیا ہم بحیثیت والدین اور اساتذہ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کا مناسب خیال رکھ رہے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ بعض اوقات ہم اپنے بچوں کو سوشل میڈیا سے متعارف تو کروا دیتے ہیں مگر اس کے منفی اور مثبت اثرات نہیں بتاتے جس سے وہ نقصان اْٹھاتے ہیں۔ ہماری نئی نسل جس کے ساتھ پاکستان کا مستقبل جڑا ہے اس کو ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہم سے پہلے کی نسل یعنی آج کے نوجوانوں کے والدین کے اساتذہ اور والدین نے بہر حال اپنے وقت کی نوجوان نسل کی بہتر اخلاقی تربیت کا فرض نبھایا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آج کے والدین اور اساتذہ اپنے نوجوانوں کو کتنا ذمہ دار اور مثبت انسان بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ترقی یافتہ معاشروں میں کیونکہ تعلیم اور آگاہی کا معیار بہتر ہے اس لئے عمومی طور پر وہاں کے والدین اور اساتذہ سوشل میڈیا کے استعمال اور نوجوانوں پر اسکے ممکنہ اثرات کے بارے میں زیادہ بہتر طور پر آگاہ ہیں۔دنیا بھر میں میڈیا پر دستیاب مواد کے لئے عمر کی درجہ بندی کا نظام موجود ہے یعنی کسی بھی ٹی وی پروگرام، فلم، کتاب، یا انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا ایپ کو دیکھنے یا استعمال کرنے کے لئے کم از کم عمر کی حد ضرور بیان کی جاتی ہے جس کو ایج ریٹنگ کہا جاتا ہے۔ ایج ریٹنگ کا یہ نظام ایک قانونی اور اخلاقی پابندی کا کام کرتا ہے۔ پاکستان میں تاحال یہ نظام مؤثر طور پر رائج اور نافذ نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے کم عمر بچے اور نوجوان بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا بے دریغ اور بلا روک ٹوک استعمال کررہے ہیں۔سوچنے والی اہم بات یہ ہے کہ اگر ترقی یافتہ اور مغربی معاشرے میں کم عمری میں کچے ذہنوں کا تحفظ لازمی سمجھا جارہا ہے تو پھر ضروری ہے کہ پاکستان میں بھی فوری طور پر اس حوالے سے ضروری قانون سازی کی جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ہم ترقی یافتہ معاشروں کے ہمقدم بن کر تیز رفتاری سے دنیا،جوکہ اب گلوبل ویلیج بن چکی ہے،کے ہم رکاب ہوکر تعلیم اور تحقیق کی منازل کو طے کریں اور اپنے ملک کو عظیم تر بنائیں۔ہمارے معاشرہ میں بدحالی، بے چینی اور بدامنی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ذرائع ابلاغ کا غلط اور ناجائز استعمال ہے۔ آج بچے، بوڑھے اور جوان سب ہی میڈیا کے غلام ہیں۔ ہر شخص کی خواہش ہے کہ اس کے پاس اچھا موبائل، اچھا ٹیلی ویژن، لیپ ٹاپ اور جدید سے جدید ایجادات ہوں، یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ اسے ان چیزوں کی ضرورت کس حد تک ہے مگر ہر کوئی یہ چیزیں اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے، کیونکہ یہ ضرورت سے زیادہ فیشن بن چکی ہیں۔لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ حقیقت سے آنکھ ملائی جائے۔اور سوشل میڈیا کے استعمال میں احتیاط برتی جائے تاکہ اس نعمت سے فائدہ اْٹھایا جا سکے۔