دْعا انسانی ضرورت
دْعا مانگنے کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان کا مذہب ہے۔دْعا دراصل اس بات کااظہار ہے کہ خدا کی ذات ہی کامل اور قابلِ ستائش ہے۔ انسان شروع سے لے کر اب تک دْعا مانگتا چلا آرہا ہے اور انسانی دکھوں مصیبتوں پر قابو پانے اور اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ہمیشہ دْعا کا سہارا لیتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب کی عمارت اسی پر مبنی ہے۔بے شک دنیا میں تمام مذاہب میں عبادت کے طریقے مختلف ہیں مگر ان میں اگر کوئی چیز مشترک ہے تو یقینا وہ د ْعا ہے۔ مذاہب کی تاریخ سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر مذہب کی تعلیمات میں دْعا کو امتیازی جگہ دی گئی ہے۔ کسی مقصد کی کامیابی کے لئے صرف عمل کافی نہیں ہوتابلکہ کوشش اور عمل کے ساتھ دْعا کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے کیونکہ ہم ہر حال میں خدا کے محتاج ہیں۔ دْعا سے سکونِ قلب جیسی بڑی نعمت حاصل ہوتی ہے۔ مادی لحاظ سے انسان جتنا بھی امیر ہو ضروری نہیں کہ اس کو دلی سکون بھی میسر ہوں۔دْعا کرنے سے انسان کے دل کو سکون ملتا ہے۔ اگر زندگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم مایوس، پریشان اور بے چین اس لئے ہوتے ہیں کہ ہم نے خدا کی بجائے کہیں اور ْامید لگائی ہوتی ہیں اور جب وہ اْمید پوری نہیں ہوتی تو پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں ہمیشہ ناکام وہی لوگ ہوتے ہیں جس کی اْمیدیں دنیا والوں سے ہوتی ہیں۔ جب انسان کی اْمید خدا سے ہوتی ہے تو پھر وہ اْمید پوری ہوجاتی ہے اور انسان زندگی میں نہ تو کبھی ناکام ہوتا ہے نہ ہی کبھی ہار سکتا ہے۔ انسان ہوتے ہوئے ز ندگی میں کئی دفعہ ہم اس بات سے بھی پریشان ہو جاتے ہیں کہ ہماری دْعائیں قبول نہیں ہوتیں تو دْعا مانگنے کا کیا فائدہ؟لیکن خدا اْس وقت ہمیں آزما رہا ہوتا ہے کہ میرا یہ بندہ کب تک وفادار رہتا ہے اور یا تو جو ہم مانگ رہے ہوتے ہیں وہ ہمارے لئے مفید نہیں ہوتا۔کیونکہ خدا کبھی اپنے بندوں کی ہلاکت نہیں چاہتا۔خدا ہماری ہر ضرورت جانتا ہے ضروری نہیں کہ ہم مانگیں تو وہ تبھی نوازے۔وہ ر حیم باپ تو بند لبوں کی بولیاں بھی سنتا ہے۔ کیونکہ ہمارا آسمانی باپ ہمارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا کہ ہم کن چیزوں کی محتاج ہیں۔لیکن یقینا وہ ہمیں دیتا ضرور ہے پر وہ چیز دیتا ہے جو ہمارے لیے فائدہ مند ہوتی ہے اور جس وقت پر ضروری ہے اس وقت پر دیتا ہے۔ بعض اوقات ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا ہماری دْعا سنتا نہیں ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا دْعا تو سنتا ہے لیکن وہ ہمیں ہمارے خوشی کی چیز دینے کے لئے صحیح وقت کا انتظار کرتا ہے۔لیکن اگر کوئی چیز ہمیں مانگنے سے بھی نہیں مل رہی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز ہمارے لئے بہتر نہیں ہے اور پھر شاید یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خدا تو دیتا ہے لیکن ہمیں مانگنا نہیں آتا۔ہمیں دْعا کرنا نہیں آتا۔مثال کے طور پر اگر والدین بچے کو بازار لے کر جائیں تو بچہ اس چیز کو لینے کی خواہش ظاہر کرے جو اْس کو پسند ہے۔مگر ماں باپ بچے کو وہ چیز لے کر دیں گے جس کی اِس کو ضرورت ہے۔اب اگر بچہ کہتا ہے کہ اسکے والدین اسکی کوئی خواہش پوری نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ماں باپ اسے پیار نہیں کرتے اس کی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھتے۔ اسی طرح ہمارا آسمانی باپ بھی ہماری ضرورتوں کے مطابق سب کچھ مہیا کرتا ہے جس کی زندگی میں ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کبھی ہماری کوئی دْعا نہ سنی جائے تو اس میں پریشانی اور مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ دْعا سنی جائے یا نہ سنی جائے دعا کے بعد مصیبت دور ہو یا نہ ہو لیکن دل کو تسلی ضرور ہوتی ہے۔ خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے اور یقینا خدا ہی ایک ایسی ہستی ہے جو کبھی ہماری آنکھوں میں پریشانی کے آ نسو دیکھ کر مذاق نہیں اْڑاتا، کبھی ہماری خواہشات کا مذاق نہیں اْڑاتا۔اور جب زندگی میں مشکلات آئیں تو یہ مت کہو کہ خداوند ہماری زندگی میں یہ مشکلات کیوں؟ اتنی بڑی مشکلات کیوں میری زندگی میں بھیج دیں؟بلکہ اپنی مشکلات کو یہ بتائیں کہ ہمارا خدا کتنا عظیم ہے کتنا بالاتر ہے۔ ایک مفکر نے کہا کہ اگر مصیبت بڑی ہو تو اس کو برداشت کرنے کے لیے دل بھی اتنا ہی بڑا ہونا چاہیے او رایسی صورت حال میں دْعا ہی ہماری سب سے بڑی تسلی اور دلاسہ ہوتی ہے۔ جب زندگی میں کبھی کسی مشکل کا سامنا ہو تو ہمیں یہ دْعا نہیں کرنی چاہیے کہ خدا مجھے اس مصیبت سے نجات دے بلکہ ہمیں خدا سے یہ دْعا کرنی چاہیے کہ ہمیں اس مصیبت کو برداشت کرنے کی طاقت عطا فرما۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر اس دنیا میں لوگ دْعا کا سہارا نہ لیا کرتے تو آج یہ دنیا ایک وسیع پاگل خانہ ہوتی۔ جب انسان ہر طرح سے مایوس ہو جاتا ہے تودْعا اس کا سہارا بنتی ہے۔ جب ہم بے قر ار ہو کر خدا کی طرف رجوع لاتے ہیں تو یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص پورے خلوص سے خدا سے مانگے اس کا کوئی اچھا نتیجہ نہ نکلے۔ ایک امریکی ماہرین نفسیات نے کہا کہ جو شخص صحیح معنوں میں مذہب کا پابند ہوتا ہے وہ کبھی بھی ذہنی امراض کا شکار نہیں ہوتا۔ ہندومت کے مہاتما گاندھی اپنی کتاب تلاش حق میں دْعا کے بارے میں تحریر کرتے ہیں جب مددگار کام نہیں آتے اور سہارے ٹوٹ جاتے ہیں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کہیں سے مدد پہنچی ہے۔بعض اوقات تو دْعا ہماری توقعات سے بھی زیادہ ہماری مدد کر تی ہے۔ بعض اوقات ہماری تکلیفیں اتنی سنگین ہوتی ہیں جو ہر کسی کو بتا نہیں سکتے۔ایسے حالات میں دْعا ایک ایسا ہتھیار ہے جو ہماری زندگی کی بات کو خدا تک پہنچاتی ہے۔اس لئے سب مذاہب نے اس کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ دْعا کا دامن کبھی نہ چھوڑیں تاکہ خدا کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط رکھ سکیں۔