بے وقوف مکھی اورچالاک مکڑا
علامہ اقبال نے اپنی نظم ”ایک مکڑ اورمکھی“میں ایک کہانی بیان کی ہے کہ مکڑے نے کس مکاری سے مکھی کو اپنی باتوں سے ورغلایا اور مکڑے کی خوشامد سے کس طرح وہ موت کے منہ میں چلی گئی۔
کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ایک مرتبہ ایک بھوکامکڑا ا پنے جالے کے سامنے شکار کی تاک میں بیٹھا تھا کہ کوئی کیڑا مکوڑا آئے اور وہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے اْسے کھا جائے۔اسی وقت اْس کے جالے کے سامنے سے ایک مکھی اُڑتی ہوئی گزری تو مکڑے نے اْسے پھنسانے کے لیے خوشامدی انداز میں اس سے کہا:
بی مکھی! تم روزانہ یہاں سے گزرتی ہو۔کبھی میرے گھر بھی آؤاور مجھے خدمت کا موقع دو۔ یہ سامنے ہی سیڑھی ہے۔
مکھی سمجھ دار تھی، مکڑے کی باتوں سے اس کا مقصد سمجھ گئی اور کہنے گی،میں اتنی نادان نہیں جو تمھاری سیڑھی پر قدم رکھوں۔کیوں کہ اگر میں تمھارے گھر آئی تو کبھی واپس نہ جا سکوں گی۔ جب اِس بات سے مکڑے کا کام نہ بنا تو اْس نے ایک اور ترکیب سوچی اور بولا:میرا گھر اگر چہ باہر سے کُٹیا کی طرح دکھائی دیتا ہے۔مگر اس کے اندر باریک باریک پردے ہیں اور اس میں مہمانوں کے لئے آرام دہ بچھو نے بھی ہیں۔ میرے گھر کی دیواریں آئینے کی طرح سے شفاف ہیں۔ یہ سب چیزیں ہر کسی کے پاس نہیں ہوتیں۔
عقل مند مکھی مکڑے کی باتوں میں نہ آئی اور کہنے لگی:خْدا تمھارے نرم بچھونوں سے بچائے۔ اْن پر اگر کوئی لیٹا تو وہ تمھارا شکار بن جائے گا اور واپس باہر نہ آ سکے گا۔
مکھی کی سمجھ داری دیکھ کر مکڑے نے سوچا کہ اس کو اپنے جال میں پھانسے کے لیے خوشامد سے کام لینا پڑے گا۔ مکڑے نے اب بڑی ہوشیاری سے مکھی کی خوشامد شروع کر دی اور بولا،تمھاری صورت بہت حسین ہے۔تمھاری آنکھوں کی مثال تو چمکتے ہوئے ہیروں کی طرح ہے اور اْڑتے وقت تمھاری بھنبھناہٹ خوب صورت گیت کی طرح اچھی لگتی ہے۔
بس اتنا کہنے کی دیر تھی سمجھ دارمکھی خوشامد سن کر خوش ہوگئی اور اس کا دل نرم پڑ گیا اور اس نے اپنی عقل سے کام لینا ہی چھوڑ دیا اور مکڑے سے کہا، بھئی کسی کا دل توڑنا اور انکار کرنا بہت بری بات ہے۔
بس یہ کہہ کرمکھی اُڑی اور مکڑے کے جالے میں داخل ہوگئی۔ پھر جیسے ہی وہ مکڑے کے پاس آئی تواُس نے اُچھل کر اسے پکڑ لیا اور کھا گیا۔ اس طرح مکڑے نے خوشامد کر کے اپنی بھوک مٹائی اور مکھی خوشامد کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی گئی۔
بچوں اس نظم کی کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ کسی کی جھوٹی تعریف سن کر خوش ہونے کی بجائے اپنی عقل سے سوچنا چاہیے کہ سامنے والا جو تعریف کر رہا ہے، وہ جھوٹی ہے یا سچی ہے۔ کیوں کہ خوشامد کا مطلب ہے کسی کی جھوٹی تعریف کر کے اس سے اپنا مقصد پورا کرنا۔ہمیں عقل اورسمجھداری سے کام لینا چا ہیے اور خوشامد سے بچ کر رہنا چاہیے، ورنہ نقصان اْٹھانا پڑتا ہے۔