بچوں کی تربیت میں والدین کا مثبت کردار
کچھ بچے چلبلے اور شوخ ہوتے ہیں اور اکثر نظر میں آجاتے ہیں،کچھ نہایت ہی بھولے بھالے لیکن نہایت شرارتی، لڑائی کی ابتداء بھی خودہی کرتے ہیں اور سزادوسروں کو دلوا دیتے ہیں۔ اکثر بچے کھیلتے کھیلتے لڑ پڑتے ہیں۔بچوں کے درمیان کھیل کھیل میں یا کسی اور وجہ سے لڑائی ہو جانا عام سی بات ہے۔بچے آپس میں لڑتے ہیں،کچھ وقت ایک دوسرے سے خفارہتے ہیں اور پھر خود ہی دوست بن جاتے ہیں۔جبکہ ان کی وجہ سے آپس میں جھگڑنے والے والدین اور رشتہ داروں کے درمیان ناراضگی برقرار رہتی ہے۔
جن خا ندانوں میں بیٹیاں ہوں وہاں لڑائی کی نوعیت مختلف ہوتی ہے جبکہ لڑکے،کھیل بھی رہے ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ لڑرہے ہیں۔بچوں میں لڑکی بڑی اور لڑکا چھوٹا یا اس کے برعکس صورت ہونے پر شکایتوں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔پہلے اس نے مارا ہے،یہ مجھے کھیلنے نہیں دے رہا ہے،میری گاڑی چھین لی،یہ میری نقل اتاررہا ہے،اس نے میری گڑیا کے بال نوچ لیے،یہ میری بات نہیں مانتا۔ اس طرح کی شکایتیں عام ہوتی ہیں،بچوں کی تعداد کی مناسبت سے ان کی شدت کم اور زیادہ ہو سکتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کی آپس کی تکرار، لڑائی جھگڑے،مستقبل کے دوستانہ روابطہ اور خاندانی ہم آہنگی متاثر ہو سکتی ہے۔ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ مسائل در پیش ہونے پر نوجوان جس طرح ردعمل ظاہر کرتے ہیں یا ان سے نمٹتے ہیں،اس کے پس منظر میں ان کا بچپن بھی کار فرما ہوتا ہے۔بچوں کے جھگڑوں میں والدین مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں اگر وہ بچوں کے جذبات،ان کی شخصیت اور انداز کو سمجھ لیں۔اس کے لیے خاموشی سے بچوں کی حرکات کا جائزہ لیا جائے۔ان کے درمیان جھگڑوں میں ظاہری صورت دیکھ کر فیصلہ نہ کیا جائے۔ بلکہ اْس وجہ کو تلاش کیا جائے جس کی بدالت بچے نے لڑائی کی۔بظا ہر مظلوم نظر آنے والا بچہ بھی جھگڑے کا سبب ہو سکتاہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کا مشاہدہ والدین کے لیے بے حد مفید رہتاہے۔کیونکہ اس سے والدین ان کی عادات سے آگاہ ہو کر مناسب فیصلے کر سکتے ہیں۔ اس طرح انہیں ایسے بہت سے مواقع ملتے ہیں کہ وہ بچوں کی اچھی عادتوں کی تعریف کرکے انہیں مزید اچھا بنا سکتے ہیں۔
بہت سے والدین اپنی الجھنوں اور پریشانیوں کے باعث سخت رویہ اختیار کرلیتے ہیں۔وہ سوچے سمجھے بغیر فیصلے کرکے ماحول کو خراب کرنے کے ساتھ بچوں کے درمیان دوریاں بھی بڑھاتے ہیں۔بچوں کے معاملے میں والدین کو غیر جانبدار بن کر فیصلہ کرنا چاہیے۔یہ بچوں کے حق میں بھی بہتر ہوگا۔بچوں کے ماں اور باپ ہونے کے ناطے خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں کیونکہ بچے نہیں جانتے کہ والدین کس قدر پریشان ہیں نہ ہی وہ آپ کی پریشانیاں حل کر سکتے ہیں۔ہاں ان سے گھل مل کر والدین ذہنی کوفت اور بیزاری سے نجات پا سکتے ہیں۔لڑ جھگڑکر بچے اپنی بات ڈھنگ سے نہیں کہہ پاتے ہیں بلکہ جذبات میں کچھ کا کچھ کہہ جاتے ہیں۔ممکن ہے حقیقت اس سے بہت مختلف ہو۔ والدین کو
چا ہیے کہ وہ ٹائم ٹیبل بنائیں اوراس پر عمل بھی کیا جائے۔بچوں کے مسائل حل کرنے کے لیے خود انہیں سوچنے اور فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ مسئلہ کیا ہے؟اس کا حل کیا ہو گا؟عام طور پر بچوں میں ٹی وی پروگرام دیکھنے پر تکرار ہوتی ہے،مثلاً ایک بچہ کارٹون دیکھنا چاہتا ہے تو دوسرا بچہ کھیل کا کوئی پروگرام۔
اگر کوئی پروگرام کسی اور وقت بھی نشر ہوتا ہوتو اسے پسند کرنے والے بچے کے ٹی وی دیکھنے کا وقت بدلا جا سکتاہے۔اس کے علاوہ جب ایک بچہ ٹی وی پر کچھ دیکھ رہا ہو تو دوسرا بچہ اْس وقت کمپیوٹر ا ستعمال کر سکتا ہے۔اس سے لڑائی جھگڑے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ بچوں کی تربیت میں ماں اور باپ دونوں ہی مثالی کردار ادا کرتے ہیں۔بچوں کے جھگڑوں میں ماں عام طور پر ریفری کا کردار ادا کرتی ہے لیکن باپ کا مثبت رویہ بچوں میں تعاون کے جذبے کو ابھارتا ہے۔تحقیق کے مطابق ایسے باپ جو اپنے بچوں سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں وہ اپنے طرزِ عمل سے بچوں میں باہمی تعاون کا جذبہ پروان چڑھاتے ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ بچے گھر کے بڑوں میں اپنا ئیت اور قربت محسوس کرکے خود بھی ان جذبوں پر مائل ہوتے ہیں۔بچوں کے سامنے اپنے جذبات کے بہتر اندازکے ساتھ ایک دوسرے کی موجودگی میں خوش رہنے کا اظہار انہیں آئندہ زندگی کے لیے تیار کرتا ہے۔ والدین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو پیار ومحبت سیکھائیں اور لڑائی جھگڑوں سے دْوررکھیں۔کیونکہ بچپن کی تر بیت اْن کی پوری ز ند گی پر ا ثرانداز ہوتی ہے۔ گھر کے اچھے ماحول میں پروان چڑھنے والے بچے یقینا کا میاب زندگی گزار تے ہیں اور معاشرے وقوم کی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔