بچوں میں بگاڑ کا ذمہ دار کون؟
بچے خدا کی طرف سے ملنے والا تحفہ ہوتے ہیں۔اور اس تحفہ کی تربیت بھی ضروری عمل ہے۔موجودہ دور میں ہمیں بچوں کے رویوں میں بہت سی منفی تبدیلیاں نظر آتیں ہیں۔اْس کے ذمہ دار کون ہیں؟بچے،معاشرہ یا والدین خود؟
اولاد کی اچھی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو بات بات پر ڈانٹنے،جھڑکنے اور بُرا بھلا کہنے سے گریز کیا جائے،اُن کی شرارتوں،کوتاہیوں پر بیزار ہونے اور غصے کا اظہار کرنے کی بجائے،محبت کے ساتھ اُنہیں سمجھائیے۔
کسی بچے کا جھوٹ بولنا اْس کے والدین کو بہت برا لگتا ہے،مگر وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ آخر اْن کا بچہ جھوٹ بول کیوں رہا ہے؟کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بچہ آپ کے پاس آتا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے،اس پر اسے بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پھرجب بچہ یہ دیکھتا ہے کہ اسے سچ بولنے پر سرزنش کا سامنا ہے،تو پھر وہ غلط بیانی شروع کر دیتا ہے۔اس لئے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی چھوٹی غلطیوں کو معاف کریں یا ان کے غلط کام پر ناراضگی ظاہر کریں،تو ساتھ ہی سچ بولنے پر شاباش دیں تاکہ بچہ سمجھ جائے کہ اگر مجھے میری غلطی پر ڈانٹا گیا ہے تو شاباش بھی تو ملی ہے ناں،ساتھ ہی وہ یہ سیکھ لے گا کہ سچ بولنا اچھی بات ہے۔
بعض دفعہ کچھ منفی جذبات بھی بچوں میں پنپنے لگتے ہیں،جیسے حسد کا جذبہ،اسے ایک نظر نہ آنے والی آگ سے تعبیر کیا جاتا ہے،جو انسان کو اندر سے جلا کر رکھ دیتی ہے۔اس لئے حسد سے دور ہی رہنا چاہیے اور پھر ماں ہوتے ہوئے،تو آپ یہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ آپ کا بچہ حسد کی آگ میں اتنا جلےکہ اس کی اپنی شخصیت مسخ ہو جائے،مگر افسوس یہ ہے کہ بعض والدین نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کر لیتے ہیں،اس طرح وہ خود ہی اپنے بچوں میں حسد کی عادت ڈال دیتے ہیں۔ظاہر ہے وہ براہ راست تو حسد کرنا نہیں سکھاتے،لیکن بلواسطہ یہ چیز اْن کے ذہن میں انڈیل دیتے ہیں۔ وہ بہن،بھائی،دوستوں اور کزن وغیرہ سے اپنی اولاد کا اتنا موازنہ کرتے ہیں کہ اس بچے کی اپنی ذات کہیں کھو کر رہ جاتی ہے۔اس لئے آپ اپنے بچے کا موازنہ کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آپ اپنے بچے کی شخصیت کو مسخ تو نہیں کر رہیں۔موازنہ ضروری ہو تو اس میں توازن رکھیں۔بچے کے جذبات کو گھائل نہ ہونے دیں۔
جب بچے کو چوٹ لگتی ہے،تو ہم اسے ہمت دلانے کے لئے یہی کہتے ہیں کہ بیٹا بہادر بنو!آپ تو میرے بہادر بچے ہو نا،اُٹھو جلدی شاباش!یعنی بہادر ہونا اچھی بات ہے،یہ بات بچپن سے بتائی جاتی ہے۔بزدل ہونا اچھا نہیں اور اپنے بچے کو بزدل بناناتو والدین کبھی نہیں چاہتے۔مگر کبھی کبھار یوں بھی ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچے کو بزدل بنا دیتے ہیں،جیسے اگر کسی کام کے دوران بچے کو کسی کام میں کوئی مشکل یا رکاوٹ پیش آ رہی ہو تو وہ فوراً آگے بڑھ کر وہ کام کر دیتے ہیں۔
ایسے میں جب وہ زندگی میں کسی رکاوٹ کا سامنا کرتا ہے،تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس میں اتنی قابلیت ہی نہیں کہ وہ اپنی راہ میں آنے والی کسی رکاوٹ کو اپنے آپ دْور کر سکے۔اس لئے والدین کو چاہیے کہ ہمیشہ بچے کو اس بات کا موقع دیں کہ وہ اپنی راہ میں حائل رکاوٹیں پہلے خود دور کرنے کی کوشش کرے،تاکہ مستقبل میں اس بچے کو خودپر بھروسہ ہو۔والدین کو چاہیے کہ زندگی میں بچوں کو جتنا ضروری ہو اْتنی نصیحت تو کریں اور زیادہ وقت اس بات کی کوشش کریں کہ وہ زندگی میں جو کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں،اْس میں اْن کا ساتھ دیں۔اْن کا حوصلہ بڑھائیں،تاکہ وہ کامیاب ہوں۔اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے،محفل یا دعوت میں بچہ کوئی غلط بات کہہ دے،تو والدین وہیں ٹوکنا اور ڈاٹنا شروع کر دیتے ہیں۔جس سے اس بچے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ اس دنیا میں سب صحیح ہے۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کو کبھی بھی لوگوں کے سامنے خواہ ان میں ان کے دوست اور بھائی بہن شامل ہیں،روک ٹوک کا نشانہ نابنائیں۔
اگر ان سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو بعد میں اکیلے میں انہیں یہ بات سمجھا دیں کہ ان سے یہ غلطی ہوئی ہے اور وہ کوشش کریں کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔بعض والدین بچوں کو خریداری کے لئے بازار لے جانا ضروری نہیں سمجھتے اور خود جا کر بچوں کے لئے ان کی چیزیں لے آتے ہیں،مگر جب وہ چیزیں بچوں کو دیتے ہیں،تو ان میں ان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور وہ دوسروں کی چیزوں کو پسند کرتے ہیں۔بچوں کا یہ انداز والدین کو پسند نہیں آتا،دراصل بعض والدین خود بچوں کو چیزیں پسند کرنے کی اجازت نہیں دیتے،اس لئے بچوں کو دوسروں کی چیزوں میں زیادہ دلچسپی ہو جاتی ہے۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کو زیادہ نہ سہی،لیکن کبھی کبھی خریداری پر ساتھ لے کر جائیں،تاکہ ان کی اپنی پسند اور ناپسند ہو اور وہ اپنی خریدی ہوئی اشیاء کو ہی استعمال کرنے کو ترجیح دے۔
جب بچے بدتمیزی کرنے لگتے ہیں،تو اکثر والدین اس کی اصل وجہ دوستوں اور باہر کے ماحول وغیرہ میں ڈھونڈتے ہیں مگریہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے پیچھے والدین کا اپنا رویہ بھی ہو سکتا ہے۔جب بچے اپنی بات والدین سے کہتے ہیں اور انہیں جواب اس انداز میں نہیں ملتا،جس انداز میں وہ توقع کر رہے ہوتے ہیں،تو پھر انہیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید بدتمیزی کرنے پر انہیں توجہ مل سکے۔
اس کا بہترین حل یہی ہے کہ والدین بچوں کی بات کو توجہ سے سنیں،تاکہ وہ غصہ اور بدتمیزی کے بجائے شائستگی اور تمیز سے بات کریں۔
جب آپ اپنے بچے کے احساسات کو اہمیت نہیں دیتے،تو ردِعمل میں بچہ بھی اسی ڈگر پر گامزن ہو سکتا ہے۔اس لئے اس حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہے،اس کی باتوں کو منطقی اعتبار سے اہمیت دینے کے بجائے اس کے لئے اہم باتوں کو جگہ دینا ضروری ہے،کیونکہ بچوں کا اپنا ذہن اور مزاج ہوتا ہے۔