اندازِ گفتگو
گفتگو کردار و شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ یہ معلومات فراہم کرنے، خیالات کا اظہار، باہم دلچسپیوں کا تبادلہ کرنے کا وسیلہ ہے۔گفتگو کے دوران موضوع کے ساتھ اندازِ بیان کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ ذہین آدمی کی پہچان تب ہوتی ہے جب وہ بروقت بااثر الفاظ بولنے کی صلاحیت رکھتا ہودنیا میں کامیاب اور موثر زندگی کے لئے جو مہارتیں درکار ہیں ان میں سے ایک ”بات جیت“ یا گفتگو میں مہارت بھی ہے۔ کسی دوسرے تک اپنا موقف پہنچانا اور اپنی بات کو صحیح معنوں میں سمجھانا ایک فن ہے۔کیونکہ ہر کوئی نہیں جانتا کہ کیا بولنا ہے؟کب بولنا ہے؟اور کیسے بولنا ہے؟
گفتگو صرف بات کرنے یا سننے کا نام ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی مہارت ہے، جس سے نہ صرف نوجوانوں کی شخصیت پرْکشش بنتی ہے، بلکہ عزت واحترام میں بھی اضافہ ہوتا ہے، لیکن آج کل ہمارے نوجوانوں کا یہ مزاج بن گیا ہے کہ سامنے والے کو متاثر کرنے کے لئے دورانِ گفتگو انگریزی الفاظ کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ جس کو بعض اوقات سامع سمجھ نہیں پاتا۔اس کو مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ انگریزی بولیں ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس زبان میں بات سمجھ سکے بس اْس کے ساتھ اْسی زبان میں بات کریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔موجودہ دور میں نوجوانوں میں تعلیم کا گراف پہلے کے مقابلے میں بڑھ رہا ہے، مگر اس کا جو نتیجہ اس نسل نو میں ہونا چاہئے وہ نظر نہیں آرہا، بعض نوجوان اعلیٰ سے اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے باوجود ذہنی اعتبار سے نہایت کورے ہوتے ہیں اور گفتگو اس انداز سے کرتے ہیں کہ شبہ ہوتاہے کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر نوجوان اپنے دوست واحباب سے گفتگو کرتے وقت ”ابے“ ”اوئے“ اور ”تو“ کا استعمال کرتے ہیں۔ کیاتہذیب یافتہ معاشرے کا یہی چلن ہے۔ دوسروں کو بلاوجہ متاثر کرنے اور ان کی توجہ حاصل کرنے کے لئے بعض نوجوان بلند آواز میں گفتگو کرتے ہیں زور زور سے قہقہے لگاتے ہیں جو سننے والوں کی سماعت پر گراں گزرتا ہے، اسی وجہ سے ان کی شخصیت کو بھی ناپسند کیا جاتا ہے، جبکہ اب کسی کو آپ کہنایا جناب کہہ کر گفتگو کرنا تو اب ختم ہی ہوتاجارہاہے۔ بچے کے لیے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہوتاہے سب سے پہلے وہ گھر سے بولنا سیکھتا ہے۔ ان کا اندازِ گفتگو جس طرح کاہوگا وہ اسی کو کاپی کرتا ہے۔ اس لیے والدین کو بھی چاہیے کہ بچوں کو ابتداء سے گفتگو کے آداب سکھائیں جو آگے چل کران کے لیے اور ان کی اولاد کے لیے فائدہ مند ہوں گے۔زندگی کے امتحانات اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہر قدم پر موثر گفتگو کی مہارت درکار ہوتی ہے۔ اس کے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا کیوں کہ اندازِ گفتگو ہی چھپی ہوئی خوبیوں اور خامیوں کو ظاہر کرتا ہے۔بعض نوجوان گفتگو کرتے وقت سامنے والے کے کندھے پر ہاتھ رسید کریں گے تو کچھ ہاتھ بڑھا کر فرمائش کریں گے ”دے تالی“ یہ باوقار نوجوانوں کا انداز نہیں ہے، اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ بعض نوجوان داداگیری زبان استعمال کرتے ہیں مثلاََ،”چھوڑوں گا نہیں، میں کسی کے باپ سے نہیں ڈرتا، میں اس کو کھری کھری سناؤں گا“ وغیرہ۔ایسا انداز اختیار نہ کریں جو کسی کی دل آزاری کرے۔ بعض اوقات گولی کی کڑواہٹ کو کم کرنے کے لئے شوگر کوٹنگ کرنی پڑتی ہے، لہٰذا باتکی کڑواہٹ کم کرنے کے لئے نرم الفاظ کا انتخاب اچھی حکمت عملی ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ آپ بہت ہی دھیمی آواز میں بات کریں کہ سامنے والے کو
سنائی ہی نہ دے۔ خود ہی بولنے اور خود ہی سننے والا عمل بھی مناسب نہیں گفتگو میں میانہ روی ہونی چاہیے۔بعض نوجوان محفل میں اوٹ پٹانگ باتیں کرکے سمجھتے ہیں کہ وہ محفل کو خوش گوار بنا رہے ہیں لیکن ایسا کرنے والوں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لہٰذا محفل کی رونق بننے کی خواہش نہ کریں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ سے عزت سے بات کی جائے تواپنی گفتگو میں دوسروں کو عزت دینی ہوگی۔ اس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ ربڑ کی گیند کو جتنی قوت سے دیوار پر مارا جائے، اسی رفتار سے واپس آتی ہے، اس لئے بولنے کی رفتار بھی اپنا اثر رکھتی ہے۔بہترین چائے اگر گندے کپ میں پیش کی جائے تو اس کی اہمیت گرجاتی ہے۔ لہٰذا ہمارا لہجہ سننے والے کے دل و دماغ پر ہمارے لفظوں سے اثر ڈالتا ہے۔یاد رکھیں طویل گفتگو بات کے اثر کو زائل کردیتی ہے۔ بات چیت کرتے وقت غیر شائستہ الفاظ سے گریز کریں کیوں کہ یہ آپ کی تربیت اور خاندان کو متعارف کرواتی ہے۔ دورانِ گفتگو اپنی آواز کے اْتار چڑھاؤ پر نظر رکھیں، اخلاقی اقدار کی برتری اسی وقت ممکن ہے جب ادا کئے گئے الفاظ سے کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔نوجوانوں کو چاہئے کہ کالج، یونیورسٹی میں اپنے دوستوں کے گروپ میں ایک دوسرے کے اندازِ گفتگو نوٹ کریں اور آپس میں ایک دوسرے کی اصلاح کریں، کیوں کہ کامیابی کے حصول کے لئے جہاں محنت ضروری ہے، وہیں متاثر کن گفتگو بھی بے حد اہمیت کی حامل ہے۔زیادہ سننے اور کم بولنے کے ذریعے آپ اپنی بات زیادہ بہتر انداز میں دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں۔اگر آپ ایک کامیاب انسان بننا چاہتے ہیں تو دیگر مہارتوں کے ساتھ اپنی بات دوسروں کو سمجھانے کا فن بھی لازمی آنا چاہئے۔ اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلا حربہ مطالعہ ہے، معیاری کتب کے مطالعے سے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتاہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اساتذہ اپنے تمام عوامل سے آگہی پیدا کریں جو طلبہ کی گفتگو میں مہارت و صلاحیتوں کو نشوونما میں معاون ہوں۔ وہ طلبہ میں تحریری اور تقریری دونوں صلاحیتوں کو فروغ دیں۔ دورانِ تدریس اساتذہ طلبہ کو نئے الفاظ سکھائیں، تاکہ ان کے ذریعے گفتگو کو بہتر بنایاجاسکے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نوجوانوں کی قوت کو صحیح سمت، شعورا ور قائدانہ صلاحیت کی نمو تعلیم و تربیت ہی سے حاصل ہوتی ہے۔یہ خیال رہے کہ تعلیم جس قدر معیاری ہوگی، اس کو حاصل کرکے اس لو سے چراغ جلانے والوں کا عزم بھی مصمم ہوگا اور ارادے بھی پختہ ہوں گے۔تعلیم ایک ایساعمل ہے جس پر گامزن ہو کر انسان کام یابی اور خوش حالی کو گلے لگاتا ہے۔دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کے بھی مختلف مدارج ہوتے ہیں، جن سے گزر کر نئی نسل ایک متوازن، سماج سے ہم آہنگ فکری سانچے میں ڈھلتی ہے یا پھر ایک غیر متوازن اور سماج سے غیر آہنگ غیر پسندیدہ شخصیت کا وجود ظہور میں آتا ہے۔تعلیمی معیار،ہماری زندگی،حالات اور رویوں کے معیار کاغماز ہے جو تعلیم اور قیادت آدمی کو ترقی،تمدن اور تہذیب کی راہوں پر گامزن نہ کر سکے، وہ ملک و قوم کی سربلندی کا باعث نہیں ہوسکتی۔تعلیم اور قیادت جہاں معاشرے کو فکر ی آزادی عطا کر تی ہے، وہیں انسانوں کو ذہنی غلامی کی زنجیروں میں باندھنے کا کام بھی انجام دیتی ہے۔ زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اچھے ماہرین پیداکرنے میں ہماری ناکامی کی وجہ بھی نئی نسل کی قائدانہ صلاحیتوں کو نا پہچانا ہے۔آج قیادت کا بحران صرف سیاسی میدان تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتاہے۔اگر ہم ایسے ماحول میں زندگی گزاررہے ہیں،جہاں ہر قسم کے پروگرام جو کہ سماجی،معاشرتی اور قومی سطح پر ناپسندیدہ اور گمراہی کی طرف لے جائیں توایسے میں ہم اپنی نئی نسل کو صحیح راہ کی جانب گامزن کرنے کی بہ جائے غلط روش پر لے جا سکتے ہیں۔،مثلاً ہم تفریح کے لیے نوجوانوں کو جو ٹی وی چینلزدیکھنے کی اجازت دیتے ہیں، انھیں اخلاقی معیار پر بالکل بھی نہیں پرکھتے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ روزمرہ زندگی اور اس کے لوازمات کو اختیار کرنے کے طریقے کلی طور پر ان لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں، جنھیں خود اس بات کا شعور نہیں ہوتاکہ وہ تفریح کے نام پر بگاڑ کا سامان کر رہے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ نوجوان اس پر خوش بھی ہیں۔وہ اس سوچ سے ناواقف ہیں کہ انھیں معاشرے کی اصلاح کے لیے کئی امور انجام دینے ہیں جس کے لیے انھیں سنجیدہ امور کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔یہ امر غور طلب ہے کہ تعلیمی نظام جن اقدار کو رواج دیتا ہے،طلبہ اپنی زندگی میں ان ہی اقدار کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اُن میں قائدانہ صلاحیتوں کے فروغ اور شخصیت کی تعمیر کے لیے نچلی سطح پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اسکول کی زندگی طلبہ کی ذہنی،فکری رویوں کی تعمیر،ترقی، تبدیلی اور ارتقاکا نقطہ آغاز ہوتی ہے۔ اساتذہ،طلبہ کی زندگی کے اس اہم دور کو ضائع نہ کریں۔ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی نشو ونما کے ذریعے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ان کی زندگی استاد کی تعلیم و تربیت کے زیر اثر پروان چڑھتی ہے،وہ اپنی زندگی کے ہرشعبے میں استاد کی رہنمائی کے تابع رہتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی قائدانہ صلاحیتوں کے فروغ کے لیے لیڈرشب کوالٹی پروگرامز کا انعقاد کر نا چاہیے۔یہ بات بھولنے والی نہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی اورکامرانی میں قائدانہ صلاحیتیں آکسیجن کا کردار ادا کرتی ہیں۔دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی ترقی میں تعلیم اورلیڈرشپ کا اہم کردار رہا ہے۔ملک و قوم کی پائیدار ترقی و استحکام کے لیے طلبہ میں لیڈرشپ کوالٹی کو فروغ دینا ضروری ہے۔اساتذہ،مسائل کا شکوہ اور وسائل کی قلت کا رونا چھوڑ کر دستیاب سہولتوں اور تعلیمی نصاب کو بہتر طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے جامع منصوبہ بندی،مناسب تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی، مسلسل رہنمائی کے ذریعے طلبہ میں قائدانہ صلاحیتوں کی نشوونما میں اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتیں اور تجربات صرف کریں تو بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔
ایک مشہور کہاوت ہے جو ہمارے اس خیال کی عکاسی ہے کہ ”اگر ایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہو تو مکئی اْگاؤ، اگر دس سال کی منصوبہ بندی کرناچاہتے ہو تو درخت اُگاؤ اور اگرصدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو اپنے عوام کی تربیت کرو انھیں بہترین تعلیم دو۔“
جب تک ذہن و سوچ کا اندازنہیں بدلتا، حالات نہیں بدل سکتے۔ حالات کا فکری تبدیلی کے بغیربدلنا ناممکن ہے۔ اسی لیے تبدیلی کے لیے ہمیں نئی نسل پر توجہ مرکوز کرناچاہیے۔ ہمارے جونوان قائدانہ صلاحیتوں کی موجودگی کے باوجود موقع نہ ملنے کے سبب تشدد اور عدم برداشت کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ان مسائل سے چٹکارا حاصل کرنے کے لئے اور ملک و قوم کی آب یاری کا حوصلہ رکھنے والی نئی نسل کو مثبت تعمیری اوصاف سے ہم آہنگ کرنا ہوگا،صلاحیتوں کو مناسب سمت اور رفتا ر سے روشناس کرنا پڑے گا،احترام انسانیت کے درس کے ساتھ عزت نفس کے جوہر سے آراستہ کرنا ہوگا، شخصی مفادات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے کی صلاحیت کو پروان چڑھانا ہوگا،ایثار و قربانی کے جذبے سے آراستہ کرناہوگا،صبر و تحمل کا مادہ پیدا کرنا ہوگا، اعتماد کی راہوں پر گامزن کرنا ہوگا،ترقی اور کامیابی کے حقیقی معنی سے انھیں آگاہ
کرنا ہوگا، قوت فیصلہ اور قوت نافذہ کی صلاحیت پیداکرناہوگی۔آج نئی نسل میں قائدانہ صلاحیتوں کاجو بحران یافقدان دکھائی دیتا ہے،اس کو مطالعہ،کھیل کود اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی سے طلبہ میں موثر طریقے سے قائدانہ اوصاف پیداکیے جاسکتے ہیں۔ سماجی مفکرین و ماہرین تعلیم مدارس پر زور دیتے ہیں کہ وہ بچوں میں قائدانہ اوصاف کے اعلیٰ مقاصد کے حصول پر کام کریں۔قائدانہ صلاحیتوں کی شخصی اور
سماجی اہمیت کے پیش نظر اساتذ ہ طلبہ میں مطلوب قائدانہ کردار کو پروان چڑھانے،ان کے شخصی اوصاف و کردار کو صحت مند و سماج کے لیے پسندیدہ بنانے میں ایک اعلیٰ فرض شناس رہبر و رہنما کا کردار انجام دیں۔اساتذہ کی جانب سے کیے جانے والے یہ اقدام نہ صرف طلبہ میں قائدانہ اوصاف پیداکرنے کا سبب بنتے ہیں بلکہ دیگر افراد کے لیے رہنما اْصول کا کام کرتے ہیں نتیجتاً شخصی ترقی،مثالی تمدن اوربہترحکمرانی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ایک بہترین قائد کی پہچان اس کی ذہنی بالیدگی،حوصلہ و ہمت،بلند نگاہی اور اس کے جرات مند اقدامات سے ہوتی ہے۔ اساتذہ طلبہ کو ایسے عظیم رہنماؤں اور قائدین کی زندگیوں کی مثالیں دیں۔ جنہوں نے معاشرے کا رخ ہی بدل دیا، زندگی کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ زمانے کے تغیرات و تبدیلیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سماجی اقدار کی پاس داری کو ملحوظ رکھتے ہوئے مستقبل کی قیادت کی تیاری بلاشبہ تعلیمی نظام اور اساتذہ کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔اس کا واحد حل صرف یہی ہے کہ نوجوانوں کی بہتر راہ نمائی اور تربیت کی جائے۔تاکہ انھیں دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی حاصل ہو۔