آرٹ کی قدرکیجئے
ہر انسان کی خواہشیں بہت ہوتی ہیں کچھ چھوٹی ہوتی ہیں اور کچھ بڑی۔کسی نے کیا خوبصورت کہا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہے خواہش پہ دم نکلے،بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے۔لیکن ان سب کے باوجود انسان جب بھی کچھ کرتا ہے تو بدلے میں صرف کچھ تعریفی کلمات سننا چاہتا ہے۔وہ بس اپنے کئے کی قدر چاہتا ہے۔اور شاید یہی چاہ انسان کو رول کے رکھ دیتی ہے یا یوں کہہ لیں اسکے اندر کے اس انسان کو مار دیتی ہے جو اسے اکساتا ہے کہ تم اپنے ہنر کو بروکار لاؤ اور پھر لوگ تمہیں سراہیں۔ حقیقت اس سے مختلف اور تلخ ہے اور جب اسے سراہا نہیں جاتا تو وہ شخص اپنی موت آپ مر جا تا ہے۔
آج سے کچھ سال پہلے اردو کی کتاب میں ''ادیب کی عزت''پڑھا تھا۔اس کہانی کا مرکزی خیال یہی تھا کہ ادیب کو نہ کسی محفل نہ کسی اور جگہ عزت دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے لکھے کے قدر دان ہوتے ہیں۔ ان کے ادب کی قدر تب ہوتی ہے جب وہ بہت ٹھاٹ بھاٹ والے ہوں۔اگر آج کے دور میں دیکھا جائے تو ایک ماڈل کی تصویر پر شیر،لائکس اور کمنٹس زیادہ ہوتے ہیں۔ایک ناچتے اور گاتے ہوئے شخص کے پیج پہ بھی مداحوں کی تعداد ان گنت ہوتی ہے اور اس کے بالکل برعکس ایک لکھاری بمشکل لوگوں کو اس بات پہ آمادہ کر پاتا ہے کہ اس کے لکھے کو پڑھیں۔ایک ماڈل کے پیج پہ جتنی بھرمار ہوتی ہے اس سے آدھے بھی کسی ادبی پیج پہ نظر نہیں آتے۔لوگوں کے ایسے رویے کی وجہ سے بہت سے اچھے لکھاری دل چھوٹا کر کے لکھنا چھوڑ چکے ہیں۔ان کا دل درد کی گہری دلدل میں دھنسا ہوا ہے کہ ان کے آرٹ کی قدر نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے ایک آدھے ادھورے لباس میں ملبوس عورت سب کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔اس کے مداحوں کی تعداد ان گنت ہے اور دوسری جانب آرٹ والے کسی گنتی میں ہی نہیں۔تبھی ایسے لوگ دنیا سے کٹ کر اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔
اس بات کا اندازہ ہم اپنی ذات سے لگا سکتے ہیں کہ کسی کی لکھی ہوئی تحریر کو ہم کتنے غور سے پڑھتے ہیں،آیا پڑھتے بھی ہیں یا نظرانداز کر کے اگلی پوسٹ پر چلے جاتے ہیں۔
ادب کو جانیے اس کی قدر کو پہچاننے کی کوشش کریں۔کسی کا لکھا پڑھ کر اسکا حوصلہ بڑھائیے۔ذرا سوچیے!
ہو سکتا جو چیز آپ کے لئے ایک فضول سی تحریر ہو اس پہ کی متاع حیات کا دارو مدار ہو۔اس کے علاوہ ہو سکتا ہے کہ صرف ایک تحریر آپ کی پوری زندگی تبدیل کر کے آپ کو ایک کامیاب انسان بنا دے۔