پتھر کی اوکھلی

انسانی تاریخ میں خوراک کی تیاری اور ذخیرہ کرنے کے طریقے ہمیشہ سے بدلتے رہے ہیں۔ آج ہم جدید مشینوں اور برقی آلات کے ذریعے کھانے کے اجزاء کو پیسنے اور پیوری بنانے کے عادی ہیں، لیکن قدیم ادوار میں یہ سہولیات موجود نہ تھیں۔ اس زمانے میں انسان نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پتھر کے بنے اوزار استعمال کیے۔ انہی اوزاروں میں سے ایک نہایت اہم اوزار پتھر کی اوکھلی ہے، جسے انگریزی میں ”Stone Mortar“کہا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف کھانے پکانے کا ایک ذریعہ رہا ہے بلکہ مختلف تہذیبوں اور معاشرتوں کا ثقافتی ورثہ بھی ہے۔
پتھر کی اوکھلی کی ابتدا ہزاروں سال قبل ہوئی۔ قدیم انسان جب شکار اور کھیتی باڑی کے ذریعے خوراک حاصل کرنے لگا تو اسے اجزاء کو باریک کرنے اور ملاوٹ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس مقصد کے لیے اس نے بڑے بڑے پتھروں کو تراش کر پیسنے کا آلہ بنایا۔ رفتہ رفتہ یہ اوکھلی کے نام سے مشہور ہوا۔ مختلف تہذیبوں میں اس کی شکلیں اور سائز بدلتے رہے، لیکن بنیادی مقصد ہمیشہ ایک ہی رہا یعنی اجزاء کو پیسنا اور باریک کرنا۔
پتھر کی اوکھلی عموماً سخت اور مضبوط پتھروں جیسے گرینائٹ یا بیسالٹ سے تیار کی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ پتھر دیرپا ہوتے ہیں اور کٹنے یا ٹوٹنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ اوکھلی کے ساتھ عموماً ایک پتھر کا ڈنڈا یا دستہ ہوتا ہے جسے ”موصل“ کہا جاتا ہے۔ اجزاء کو اوکھلی میں ڈال کر موصل کی مدد سے پیسا جاتا ہے۔ اس طریقے سے مسالے، جڑی بوٹیاں، اناج اور حتیٰ کہ بعض اوقات گوشت تک کو کُوٹا جاتاہے۔
پتھر کی اوکھلی نے خوراک کو ذائقہ دار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ قدیم زمانے میں لوگ مرچ، ہلدی، دھنیا، زیرہ اور دیگر مصالحہ جات اوکھلی میں پیس کر استعمال کرتے تھے۔ اس طرح ان کے ذائقے اور خوشبو زیادہ نمایاں ہوتی تھی۔ آج بھی کھانے پکانے کے ماہرین مانتے ہیں کہ اوکھلی میں پیسے گئے مصالحے مشین میں پیسے گئے مصالحوں کے مقابلے میں زیادہ خوشبودار اور مزیدار ہوتے ہیں۔
خوراک کے ساتھ ساتھ پتھر کی اوکھلی کا استعمال طب اور علاج میں بھی کیا جاتا رہا ہے۔ قدیم یونانی، رومی، چینی اور برصغیر کے حکماء مختلف جڑی بوٹیاں اوکھلی میں کوٹ کر دوائیں تیار کرتے تھے۔ آیوروید اور یونانی طب میں اس کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ اوکھلی میں پیسی گئی جڑی بوٹیوں کو زیادہ مؤثر اور جلد اثر کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔
پتھر کی اوکھلی صرف ایک اوزار نہیں بلکہ کئی معاشروں میں یہ ایک ثقافتی علامت بھی ہے۔ دیہی علاقوں میں آج بھی گھروں میں اوکھلی استعمال ہوتی ہے۔ شادی بیاہ کی رسومات میں بعض جگہ اوکھلی کا استعمال روایتی طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ مقامات پر پتھر کی اوکھلی کو گاؤں کے اجتماعی ورثے کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے۔
جدید دور میں اگرچہ برقی گرائنڈر اور بلینڈر نے اوکھلی کی جگہ لے لی ہے، لیکن اس کی اہمیت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ دنیا کے کئی حصوں میں، خاص طور پر ایشیائی اور افریقی ممالک میں، آج بھی لوگ پتھر کی اوکھلی کو ترجیح دیتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے صحت مند زندگی کی علامت سمجھتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے اجزاء قدرتی طور پر پیسے جاتے ہیں اور ان میں حرارت یا برقی شعاعوں کا کوئی اثر شامل نہیں ہوتا۔
پتھر کی اوکھلی انسانی تاریخ کا ایک لازوال حصہ ہے۔ یہ صرف ایک اوزار نہیں بلکہ ہماری تہذیبی پہچان کا حصہ بھی ہے۔ چاہے وہ خوراک ہو، دوا ہو یا ثقافتی روایت، پتھر کی اوکھلی نے ہر دور میں اپنی افادیت ثابت کی ہے۔ آج بھی جب ہم کسی دیہی کچن میں اس کی آواز سنتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ ماضی اور حال کو ایک ڈوری میں باندھ رہی ہو۔ یقیناً پتھر کی اوکھلی آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک قیمتی ورثہ ہے۔

Daily Program

Livesteam thumbnail