ٍٍپینگولین
دنیا بھر میں پینگولین کی 8 اقسام پائی جاتی ہیں۔ اس کے مساکن ایشیا اور افریقہ کے براعظم ہیں۔ ایشیا میں پایا جانے والا پینگولین انڈین پینگولین کہلاتا ہے۔یہ بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کی معدومی کے خطرے سے دوچار جانداروں کی فہرست ”ریڈ لسٹ“ میں شامل ہے
پاکستان میں پائی جانے والی نوع انڈین پینگولین (Manis crassicaudata) کہلاتی ہے۔ یہ موٹی دُم والا پینگولن، کھپرے والا چیونٹی خور، اور دنیا کا واحد زندہ پائن مخروط (pine cone) بھی کہلاتا ہے، کیونکہ کبھی کبھی دیکھنے میں یہ پائن کے درخت سے لٹکنے والی مخروط (cone) کی طرح نظر آتا ہے۔
پینگولن وہ واحد ممالیہ (اپنے بچوں کو دودھ پلانے والا جانور) ہے جس کے جسم پر کھپرے ہوتے ہیں، جو اسے شکاری اور حملہ آور جانوروں سے بچاتے ہیں۔ یہ کھپرے اس کے پورے جسم پر ہوتے ہیں، جو کیراٹن (keratin) کہلانے والے ایک سخت مادّے سے بنے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں اس کے مرکزی مساکن پوٹھوہار اور چکوال ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان، سندھ اور گلگت بلتستان میں بھی نظر آتا ہے۔بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کے مطابق اگرچہ پینگولین کی آبادی کے حوالے سے کوئی تحقیق موجود نہیں ہے مگر تقسیم سے قبل انگریزوں نے بڑی تعداد میں جنگلات کاٹ دیے تھے تو یہ جانور بلوچستان میں کوہِ سلیمان کی جانب ہجرت کرگیا تھا۔ محتاط اندازے کے مطابق اب سندھ میں پاکستان کی کل آبادی کے بمشکل 5 فیصد ہی پینگولن باقی رہ گئے ہیں۔
پینگولن کو چیونٹی خور اور چکوال میں مقامی طور پر اسے ’سلہہ‘ کہا جاتا ہے۔ پینگولین ایک شرمیلا اور بے ضرر جانور ہے جو اکثر رات کے وقت ہی اپنے بل سے باہر نکلتا ہے۔ اس کے تیز ناخن اسے زمین کھودنے میں مدد دیتے ہیں۔ چھوٹے کیڑے مکوڑے اور دیمک اس کی خوراک ہیں۔ اس کی زبان لمبی ہوتی ہے جس سے کیڑے مکوڑے چبک جاتے ہیں۔پینگولین کے حوالے سے عوامی سطح پر ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ جانور قبریں کھود کر مردے کھاتا ہے۔ اس بات میں کوئی صداقت نہیں۔ یہ گوشت خور جانور نہیں ہے۔ اس کی غذا چیونٹی، دیمک اور دیگر چھوٹے کیڑے مکوڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قبرستانوں میں پرانے درختوں کے آس پاس نظر آتا ہے۔ اکثر و بیشتر لوگ اس جانور کو مردہ خور سمجھ کر ماردیتے ہیں۔
دنیا بھر میں اسلحے اور انسانی تجارت کے بعد تیسرے نمبر پر جنگلی جانوروں کی تجارت آتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ پینگولین کی تجارت 1820ء میں شروع ہوئی جب برطانیہ پر جارج سوئم کی حکمرانی تھی۔ انہیں ایک تقریب میں ایک کوٹ اور ہیٹ پیش کیا گیاتھا جو انڈین پینگولین کی کھال کے چھلکوں سے تیار کیا گیا تھا، لیکن خیال یہ ہے کہ یہ تجارت اس سے پہلے بھی جاری تھی۔ اس جانور کے بنیادی مساکن ایشیا اور افریقہ کے ممالک ہیں۔ ایشیائی ممالک میں اس کی اسمگلنگ کا سبب اس کی کھال پر موجود چھلکے یا کھپرے اور اس کا خون ہے۔جن کا ادویات میں استعمال عام ہے جبکہ دوسرا سبب اس کا گوشت ہے جسے دنیا بھر میں ایک ”لگژری فوڈ آئٹم“ سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف افریقہ کے کچھ ممالک میں ان دونوں وجوہات کے علاوہ اس جانور کا استعمال جادو ٹونے وغیرہ میں بھی کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ یہی ممالیہ اسمگل کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی جنگلی حیات کی خرید و فروخت میں سب سے زیادہ پینگولین کی غیر قانونی تجارت ہوتی ہے اور محتاط اندازوں کے مطابق اس معصوم جانور کی نسل کا 70 سے 80 فیصد خاتمہ ہوچکا ہے۔ اس صورتحال میں اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ اگر اس مسئلے کا سدباب نہیں کیا گیا تو یہ جانور پاکستان سے معدوم ہوسکتا ہے۔قبرستانوں کے قریب تو لوگ اسے مارا ہی کرتے تھے مگر اس بے ضرر جانور پر ایک اور مصیبت تب ٹوٹی جب اس کے گوشت اور کھال پر موجود چھلکوں کی قیمت ڈالرز میں ملنے لگی۔
2009ء میں جب بچھوؤں اور چھپکلیوں کی تجارت بڑھی تو پینگولین کی مانگ اور قیمت میں اضافہ ہوا۔ گوشت تو صرف چین میں بکتا ہے مگر اس کی کھال پر جو چھلکے یا کھپرے ہوتے ہیں اس کی طلب پوری دنیا میں ہی پائی جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ایک پینگولین 20 سے 25 ہزار روپے میں مل جاتا ہے جبکہ چین پہنچ کر یہ 10 لاکھ روپے کا ہوجاتا ہے جبکہ اس کی کھال پر موجود چھلکوں کی قیمت چین کی مارکیٹ میں 4 لاکھ کی مل جاتی ہے۔