وادیِ کمراٹ
خیبرپختونخوا کے ضلع اپردِیر کے پُرفضا مقام اور کوہِ ہندوکش کے دامن میں واقع جنّت نظیر ”وادی کمراٹ“، برف سے ڈھکے پہاڑوں، سبزہ زاروں، گھنے جنگلات، آب شاروں، چشموں اوردریائے پنجکوڑہ کے صاف وشفّاف پانی کی وجہ سے سیّاحوں کے لیے بے پناہ کشش کے حامل ایک اہم سیّاحتی مرکز کی صُورت اختیار کرچکی ہے۔ گھنے جنگلات سے ڈھکی اور بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان واقع اس وادی کا راستہ تیمر گرہ سے شروع ہوتا ہے، جو فرید خان شہید (بابِ کمراٹ) سے ہوتے ہوئے اس حسین و دلکش وادی تک لے جاتا ہے۔
شرینگل سے پاتراک، بیاڑ، بریکوٹ سے ہوتے ہوئے کلکوٹ تک تقریباً ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ”دروازوں“ نامی گاوں آتا ہے، جہاں دریا پر بنا پل سیّاحوں کو کمراٹ سے اتروڑ اور باڈ گوئی پاس سے ہوتے ہوئے کالام پہنچادیتا ہے۔ یہ سارا علاقہ جیپ ٹریک ہے اور مقامی لوگوں اور سیّاحوں کے لیے وادی کمراٹ سے وادی کالام و سوات تک پہنچنے کا ذریعہ بھی۔ کالام اور اتروڑ سے ہوتا ہوا یہ دشوار گزار راستہ انتہائی گھنے، بلند و بالا پہاڑوں سے ڈھکے جنگلات سے گزرتا ہے۔ اس راستے سے کمراٹ کا سفر اپنی نوعیت کا انتہائی دل چسپ اور منفرد سفرہے۔
اس سفر کے لیے چھوٹی جیپ اور تجربہ کار، مشّاق ڈرائیور کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اپردیر سے دروازوں کا فاصلہ 79 کلومیٹر بنتا ہے اور یہاں سے دوسرا راستہ دائیں جانب برف پوش پہاڑوں کے دامن سے ایک خُوب صُورت، سرسبز میدان اور چراہ گاہ جہاز بانڈہ کی طرف جندرئی گاوں سے ہوکر جاتا ہے۔ دروازوں سے جندرئی گاؤں کا فاصلہ 12 کلومیٹر پر محیط ہے، جو عمومی طور پر بذریعہ جیپ طے کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک خُوب صُورت میوزیم بھی موجود ہے۔ جس میں وادی کمراٹ، کوہستان سے متعلق مختلف نوادرات اور تاریخی اہمیت کی حامل اشیاء موجود ہیں۔ جندرئی سے جہاز بانڈہ کے لیے 7.5 کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔
یہ سفر تقریباً 6 سے 7 گھنٹے میں طے کیا جاسکتا ہے۔ جہازبانڈہ کا وسیع و عریض، سرسبز میدان سطحِ سمندر سے 8900 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ یہاں سیّاحوں کے قیام و طعام کے لیے عارضی ہوٹلز اور ریسٹورنٹ بھی موجود ہیں۔ جہاز بانڈہ کے خُوبصُورت میدان کے ایک جانب بہتے پانی کی آبشار بہتی ہے،تودوسری جانب 15 سے زائد خُوبصُورت اور دیدہ زیب جھیلیں دعوتِ نظارہ دیتی نظر آتی ہیں۔
ان جھیلوں میں سب سے خوب صورت سطحِ سمندر سے 11500 فٹ بلندی پر واقع ”کٹورا جھیل“ ہے۔ گلیشئیرز کے فیروزی مائل پانی والی اس جھیل کے اردگرد موجودپہاڑ، وادء نیلم کی رتی گلی جھیل کے پہاڑوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ جہاز بانڈہ سے کٹورا جھیل کا پیدل سفر اور ٹریکنگ 4.7 کلومیٹر پر مشتمل ہے، جو 3 سے 4 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ کٹورا جھیل کا ٹریک بھی فطرت کے نت نئے رنگوں اور حسین قدرتی مناظر سے متعارف کرواتا ہے۔
جس کے بعد سے سیّاحوں کی بڑی تعداد جہاز بانڈہ اور کٹورا جھیل سمیت کمراٹ کا رُخ کرتی نظر آتی ہے۔۔ یہاں کے حسین قدرتی مناظر، جن میں دریائے پنجکوڑہ، کالا چشمہ، دوجنگہ، درہ بدوگئی، چروٹ بانڈہ، جہاز بانڈہ اور آس پاس کی آب شاریں، جندرئی گاوں، کٹورا جھیل اور برف پوش پہاڑ شامل ہیں،
دروازوں سے تھل گاوں تقریباً نصف گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ جب کہ تقریباً 5 کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد سیّاح وادی کمراٹ کے جنگل میں داخل ہوجاتے ہیں کہ یہیں سے 20 کلومیٹر لمبی واد ی کمراٹ کا آغاز ہوتا ہے۔ راستے میں گھنے جنگل آتے ہیں، جن کے آخر میں برف سے ڈھکے بلند وبالا پہاڑ اِستادہ ہیں۔ تھل گاوں کے بعد کمراٹ کے خوب صورت جنگل، خیموں اور عارضی ہوٹلز کے لیے مختص جگہ، آبشار، کالا پانی، دوجنگہ، کنڈل شاہی بانڈہ، چروٹ بانڈہ، ازگلو بانڈہ اور شہزور بانڈہ سے ہوتے ہوئے بلند پہاڑی سلسلے کا آغاز ہوتا ہے۔ جس کے اختتام پر چترال شروع ہوجاتا ہے۔
تھل سے کمراٹ تک چونکہ لوکل ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں، اس لیے یہاں موجود فور بائی فور جیپ یا ذاتی گاڑی کے ذریعے ہی آگے کا سفر طے کیا جاسکتا ہے۔ لوکل جیپ ڈرائیورز یہاں 4 سے 5 ہزار روپے تک کرایہ طلب کرتے ہیں۔ تھل سے دو راستے نکلتے ہیں۔ ایک وادی کمراٹ کی طرف جاتا ہے، جہاں قدم قدم پر ہوش رُبا نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں، تو دوسری طرف جہاز بانڈہ کا بانال (بانال کوہستانی زبان میں اس جگہ کو کہتے ہیں، جہاں پہاڑ پر 5 سے 10 گھر ہوں اور گرمیوں میں لوگ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ رہتے ہوں) ہے۔
موسمِ گرما کے آغاز سے یہاں کے مقامی لوگ اپنے مال مویشیوں کو تقریباً 6 ماہ تک کے لیے ان چراگاہوں میں لے جاتے ہیں اور پھر سردی شروع ہوتے ہی یہ تھل اور دیگر ذیلی علاقوں کی طرف ہجرت کرکے اپنے ساتھ مکھن، دیسی گھی اور پنیر بھی وافر مقدار میں لے جاتے ہیں، جن سے یہ سردیوں کے موسم میں اپنی غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
وادی کمراٹ کی جانب جانے والا راستہ تھل سے دریا کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں پختہ اور اکثر کچّا ہے۔ جنگل میں کچھ دیر سفر کے بعد دائیں جانب تھوڑی بلندی پر پانی کا شور سنائی دیتا ہے۔ سراج آبشار کے نام سے موسوم آبشار، وادی کمراٹ کی مشہور آبشار ہے، جو ندی کی طرح تیزی سے نیچے گرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ آبشار انتہائی بلند اور وسیع ہے۔ پا نی کے گرنے کا شور دور دور تک سنائی دیتا ہے۔ اسکردو کی منٹوخہ اور سوات کی مشہور آبشار جوارگو سے مشابہت رکھنے والی یہ آب شارحُسن میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی بلندی تقریباً 100 سے 120 فٹ تک ہے۔
کمراٹ کے جنگلات، جنگلی حیات کے وجود سے بھی آباد ہیں۔ یہاں مارخور، ہرن اور چیتے وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ جنگلی بھیڑیں اور بندر بھی عام طور پر آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ پرندوں میں مرغ زرّیں کی بڑی تعداد ان جنگلوں میں نظر آتی ہے، جب کہ جنگل کے بیچ میں بہتے دریائے پنجکوڑہ میں ٹراؤٹ فش بھی بکثرت پائی جاتی ہے۔ سیّاح یہاں کیمپنگ کے ساتھ پرندوں اور مچھلی کا شکار بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ جنگل کے دوسرے حصّے پر وسیع و عریض پتھریلے میدان ہیں، جس کے اختتام پر انتہائی بلند و بالا عمودی پہاڑوں پر مشتمل طویل سلسلہ ہے۔
یہاں کے پہاڑ گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ تقریباً 10 کلومیٹر کی مسافت پر کالا چشمہ واقع ہے۔ یہ نہایت دلفریب، خُوب صُورت مناظر سے بھرپور ایک سیّاحتی مقام ہے۔ اِس چشمے کو مقامی زبان میں ”تورے اوبہ“ کہا جاتا ہے۔ کالا چشمے کا پانی بہت شفّاف ہے۔ یہاں دریا میں موجود پتھر بھی صاف نظر آتے ہیں، اس کی مخالف سمت میں دریا کے پار قالین نما ایک زرخیز علاقہ دوجنگہ ہے۔ جہاں دو ندیاں مل کر دریائے پنجکوڑہ کی بنیاد رکھتی ہیں۔
دوجنگہ سے آگے جیپ ٹریک ختم ہوجاتا ہے۔ مگر وہاں سے ایک یا دو دن کے پیدل ٹریک کے ذریعے شہزور بانڈہ اور وادی کی بلند ترین جھیل، شہزور جھیل تک پہنچا جاسکتا ہے۔ تھل تک سڑک کی حالت نسبتاً بہتر ہے، تاہم اس سے آگے سفر کے لیے فور وہیل گاڑیاں استعمال کرنی پڑتی ہیں۔ وادء کمراٹ میں جگہ جگہ جھونپڑی نما ہوٹلز کے ساتھ اچھے ہوٹل بھی بن گئے ہیں۔ یہ کیمپنگ کے لیے انتہائی موزوں علاقہ ہے۔ کمراٹ ویلی میں ٹینٹ ویلیج بھی قائم ہے، جہاں سے سیّاحوں کو انتہائی مناسب قیمت پر ٹینٹ مل جاتے ہیں۔ کمراٹ میں سیّاحوں کی آمد سے مقامی لوگوں کے روزگار اور علاقے کی ترقی میں اضافے کے بعد یہاں آباد لوگوں کی خواہش ہے کہ اس وادی کی سیّاحت کو مزید فروغ دیا جائے۔
سیّاحوں کی تعداد میں روز افزوں اضافے کے سبب یہاں کے مقامی لوگوں میں سیّاحت کی صنعت کے حوالے سے شعور میں بھی بتدریج اضافہ ہورہا ہے اور اب لوگ کیمپنگ کے لیے مناسب کرائے پر خیمے، گرم کمبل اوردیگرسامان فراہم کرکے اپنے روزگار میں اضافہ کررہے ہیں۔ سیّاحوں کا کہنا ہے کہ وہ کمراٹ کی قدرتی خُوب صُورتی کے باعث یہاں آتے ہیں۔ علاقے میں جدید سہولتوں کی عدم فراہمی کے باوجود کیمپنگ کے شوقین اورمہم جُو سیّاحوں کے لیے اس وادی کی سیر کسی نعمت سے کم نہیں۔
اس حسین وادی کی دوسری سمت جہاز بھانڈا، سطح سمندر سے11ہزار5 سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ جہاز بھانڈا سے کٹورا جھیل کا سفر چھے کلومیٹر پر محیط ہے، اور وہاں پہنچنے کے لیے4 سے چھ گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ اس جھیل میں تیرتے ہوئے برف کے ٹکڑے یوں دکھائی دیتے ہیں، جیسے سفید کنول کے کئی کئی فٹ لمبے پھول تیر رہے ہوں۔ جھیل سے پانی ایک آبشار کی مانند نیچے وادی کی طرف بہتا ہے۔
گرچہ کٹورا جھیل یا جہاز بھانڈا تک پہنچنا ایک کٹھن اور مشکل مرحلہ ہے، مگر وہاں پہنچ کر انسان اپنی تھکان بھول کر قدرت کے دل کش نظاروں میں محو ہوجاتا ہے۔ وادء کمراٹ میں آباد بیش تر لوگوں کے گزر اوقات کا انحصار جنگلات کی لکڑی سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے۔
وادی کمراٹ میں زراعت بھی مقامی آبادی کے لیے آمدنی کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ علاقہ آلو کی کاشت کے لیے بہت مشہور ہے، یہاں کا آلو صوبہ خیبر پختون خوا کے علاوہ راول پنڈی اور اسلام آباد کی سبزی منڈی میں بھی فروخت ہوتا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ جوار، گوبھی، شلجم، مٹر اور سلاد کے پتّے بھی یہاں کی اہم فصلیں ہیں، جن سے یہاں کے لوگ قلیل سرمایہ حاصل کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق کمراٹ ویلی میں سیّاحت کو فروع دینے کے لیے حکومت کو یہاں کا مواصلاتی نظام بہتر بنانا ہوگا۔ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کچھ عرصہ قبل اپنی مدد آپ کے تحت اس جنّت نظیر وادی میں سیّاحوں کو راغب کرنے کے لیے مختلف ایونٹس منعقد کیے گئے، لیکن کورونا وبا کی وجہ سے یہ سلسلہ فی الحال موقوف ہے۔
محکمہ سیّاحت اور صوبائی حکومت کو وادء کمراٹ میں سیّاحت کے فروغ کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح نہ صرف زرِمبادلہ میں اضافہ ہوگا، بلکہ مقامی لوگوں کی معاشی حالت میں بھی بہتری آئے گی۔ محکمہ سیّاحت، خیبر پختون خوا کے ترجمان، لطیف الرحمان نے اس ضمن میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمارا ارادہ ہے کہ خیبر پختون خوا میں دنیا کی سب سے اونچی اور طویل فاصلے تک کی کیبل کار چلائی جائے۔ یہ کیبل کار اپردیر سے لوئر چترال تک 14 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گی اور خیبر پختون خوا حکومت نے یہ منصوبہ شروع کرنے کے لیے تمام تر ہوم ورک کرلیا ہے۔“