مینگرووز
مینگرووز کے پودے نہایت ماحول دوست ہوتے ہیں یہ دیگر پودوں کے مقابلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی 18 فیصد زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ خاص طور پر کراچی جیسے شہر کے لیے جہاں پہلے ہی فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے نہایت ضروری ہیں۔
تاریخی طور پر پاکستان کے پاس دنیا کے چھٹے بڑے مینگرووز جنگلات تھے، لیکن مسلسل کٹائی کی وجہ سے پاکستان آٹھویں درجے تک جا پہنچا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ آگاہی اور شجرکاری مہم کی وجہ سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اس حوالے سے ہماری عالمی رینکنگ میں ایک درجہ بہتری آئی ہے، اور اب ہم ساتویں نمبر پر ہیں۔
مینگرووز کے جنگلات گندے پانی میں اپنا وجود تو برقرار رکھے ہوئے ہیں مگر انہیں تازہ پانی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس سے ان کے بڑھنے کی شرح تیز ہوجاتی ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف کے مطابق تقریباً 415 ملین گیلن صنعتی فضلہ روزانہ سمندر میں پھینکا جا رہا ہے جس سے سمندری ماحول تیزی سے تباہی کی جانب گامزن ہے۔
مینگرووز کے جنگلات کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ زمین کے کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر کی تیز لہروں کے خلاف ایک قدرتی دیوار کا کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں سال 2000ء تک مینگرووز کے جنگلات بلڈر اور ٹمبر مافیا کے ہاتھوں سکڑ کر اپنا زیادہ تر حصہ گنوا بیٹھے تھے، مگر سالہا سال کی کوششوں سے، بالخصوص 2004ء کے بحرِ ہند کے سونامی کے بعد ان کوششوں میں تیزی آئی اور اب مینگرووز کے جنگلات اپنا رقبہ بتدریج کھونے کے بجائے دوبارہ حاصل کر رہے ہیں۔
ان جنگلات کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کی جڑیں چھوٹی مچھلیوں، جھینگوں اور کیکڑوں کے لیے افزائشِ نسل کی نرسریوں کا کام انجام دیتی ہیں، مگر آلودہ پانی کی وجہ سے اب یہ نرسریاں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔مینگرووز کی جڑیں زمین کے اندر سے باہر کی جانب نکلی ہوتی ہیں
مقامی آبادی مینگرووز کی لکڑی کو بطورِ ایندھن بھی استعمال کرتی ہے۔ یہ اس درخت کا انسانوں کے لیے تحفہ تو ہے، مگر یہ عمل بذاتِ خود قابلِ تحسین نہیں کیونکہ مینگرووز کے جنگلات ویسے ہی کٹائی کے نشانے پر ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ مقامی آبادی کو متبادل ایندھن فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنی ضروریات کے لیے اس کی لکڑی نہ کاٹتے رہیں۔
ماہرین کے مطابق کسی بھی سونامی یا سمندری طوفان کے نتیجے میں مینگرووز کے جنگلات ساحلی پٹی کے لیے ڈھال کا کردار ادا کرسکتے ہیں، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ گھنے ہوں اور ان کی کٹائی پر پابندی عائد ہو۔ سندھ کے محکمہ جنگلات کی جانب سے سب سے بڑی کوشش 2013ء میں کی گئی تھی جب حکومت اور غیر سرکاری اداروں نے مل کر مینگرووز کے 8 لاکھ سے زائد پودے ایک دن کے اندر لگا کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کروایا تھا۔ اب اپریل کے ہی مہینے میں حکومتِ سندھ نے اپنا ہی ریکارڈ توڑتے ہوئے 11 لاکھ سے اوپر مینگرووز کے پودے دوبارہ لگائے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پودے لگانے کے ورلڈ ریکارڈ جہاں خوش آئند ہیں، وہیں ساحلی علاقوں کی ماحولیات اور مینگرووز کے جنگلات کو بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے جس میں انڈس ڈیلٹا کو صاف پانی کی دوبارہ فراہمی، بغیر ٹریٹمنٹ سیوریج کے پانی کو سمندر میں پھینکنے پر پابندی، رہائشی اسکیموں کی تعمیر اور دیگر کمرشل ضروریات کے لیے جنگلات کے کٹاؤ کی روک تھام اور عوام میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔