روشنی کی آلودگی
روشنی کی آلودگی،یقیناًسننے میں کچھ عجیب سا لگتا ہے کیونکہ ہم شاید روشنی کی آلودگی کے منفی اثرات سے واقف نہیں ہیں۔دنیا بھر میں روشنی کی آلودگی ایک ابھرتا ہوا مسئلہ ہے، جس میں سالانہ دو فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔’’لائٹ پولوشن“ سے زمین کے ماحول اور انسانوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔فضائی، آبی اور دیگر آلودگیوں کی نسبت روشنی کی آلودگی کا آغاز ہوئے ابھی اتنا عرصہ نہیں ہوا۔ 1879 میں تھامس ایڈیسن نے بلب ایجاد کیا، تو اس سے پہلے مصنوعی روشنیوں کا واحد ذریعہ آگ تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگیوں اور ایکو سسٹم پر لائٹ پولوشن کے اثرات ابھی تک اتنے گہرے نہیں ہیں بلکہ پاکستان میں تو بہت سے لوگ اس سے آشنا بھی نہیں۔رات کے وقت ساحلی علاقوں اور مکڑی کے جالوں کی طرح پھیلی شہروں کی روشنیاں دیکھنے میں خوبصورت دکھائی دیتی ہیں، لیکن منصوعی روشنیوں کے انسانی صحت اور ماحول پر غیرارادی طور پر نتائج بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
ہمارے ارد گرد موجود تمام مصنوعی روشنیاں لائٹ پولوشن کا سبب بن رہی ہیں۔ ان میں گھروں، تفریحی مقامات، شاپنگ مالز، ہوٹلز اور اسٹریٹ لائٹس وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسمارٹ فونز سے خارج ہونے والی روشنیاں بھی لائٹ پولوشن میں حصہ دار ہیں، جن سے سب سے زیادہ انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔آج کی دنیا میں 80 فیصد سے زیادہ انسان ایسے علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں آسمان غیر ضروری روشنیوں کی وجہ سے آلودہ ہوتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں تو روشنی سے آلودہ آسمان کے نیچے زندگی بسر کرنے والے انسانوں کا تناسب 99 فیصد بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کروڑوں انسانوں کی آنکھوں کو حقیقی تاریکی کے تجربے سے گزرنے کا کوئی موقع ہی نہیں ملتا۔اسی طرح کے حالات کی انتہائی نوعیت کی ایک مثال سنگاپور میں بھی دیکھنے میں آتی ہے، جہاں روشنیوں کی وجہ سے راتیں اتنی منور ہوتی ہیں کہ عام شہریوں کی آنکھوں کو حقیقی تاریکی کا سامنا کرنے کے لیے باقاعدہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
رات کے وقت کافی حد تک تاریکی صرف ماحول ہی کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے بھی بہت اچھی ہے۔ اب تک کیے جانے والے کئی طبی مطالعاتی جائزوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آنکھوں کو پہنچنے والے نقصان اور مصنوعی روشنیوں کے مابین ایک باقاعدہ ربط پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہی روشنیوں کا بے خوابی، جسمانی فربہ پن اور کئی واقعات میں ڈپریشن سے تعلق بھی ثابت ہو چکا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق ان تمام معاملات کا تعلق میلاٹونن نامی ہارمون سے ہے، جو انسانی جسم میں اس وقت خارج ہوتا ہے، جب اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ جرمن ریسرچ سینٹر فار جیو سائنس کے ماہرکہتے ہیں کہ جب ہمارے جسم میں یہ ہارمون پیدا نہیں ہوتا، اس وجہ سے کہ ہمارا سامنا اپنے گھر، کام کی جگہ یا کھلے آسمان کے نیچے بہت زیادہ روشنی سے رہتا ہے، تو انسانی جسم کا وہ سارا نظام مسائل کا شکار ہو جاتا ہے، جسے حیاتیاتی کلاک سسٹم کہتے ہیں۔زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کے مطابق زمین پر انسانی طرز زندگی کے باعث کرہ ارض ہر سال دو فیصد کی شرح سے روشن تر ہوتا جا رہا ہے۔
انٹرنیشنل ایسٹرونومیکل یونین آف ڈارک سکائیزکا کہنا ہے کہ انسانی جسم کا نظام قدرت کے مخصوص چکر پر چلتا ہے جسے ”سر کیڈین ردھم“ کہا جاتا ہے اور جس میں سونے اور جاگنے کے اوقات بھی شامل ہوتے ہیں۔ سوتے وقت ہمارا دماغ ایک ہارمون میلاٹونن خارج کرتا ہے جس کے اخراج کا تعلق اندھیرے سے ہوتا ہے۔اگر سوتے وقت دماغ پر روشنی پڑے، جیسے سمارٹ فون ساتھ رکھ کر سونا تو میلاٹونن کا اخراج متاثر ہوگا۔ اس سے نیند میں خلل اور صحت کے دیگر مسائل جیسے سر درد، تھکاوٹ، اعصابی تناؤ، نیند کی کمی کی وجہ سے موٹاپا، ڈپریشن اور کینسر کی کئی اقسام لاحق ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جن میں بریسٹ کینسر سر فہرست ہے۔سب سے زیادہ نقصان دہ اسمارٹ فونز کا استعمال ہے، جس سے خارج ہونے والی روشنی بینائی اور دماغی صحت کے مسائل کو بڑھا رہی ہے۔ لوگ چڑچڑے، غصیلے اور بد مزاج ہوتے جارہے ہیں اور ان کی برداشت کی صلاحیت دن بدن کم ہو رہی ہے
روشنی کی آلودگی جنگلی حیات کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔ اس سے پودوں اور جانوروں کی فزیالوجی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں کئی جانور اور پرندے سال میں دومرتبہ اپنے طے شدہ راستوں سے ہجرت کرتے ہیں۔ مگر ان راستوں پر بڑھتی ہوئی مصنوعی روشنیوں سے یہ بھٹک کر مر جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق صرف امریکا میں ہر برس سو ملین سے ایک بلین ہجرتی پرندے مصنوعی روشنیوں کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں۔بہت سے جانور جو رات میں شکار کرتے ہیں وہ جنگلات کی کٹائی اور روشنیوں کی زیادتی کے باعث شکار کرنے سے قاصر ہیں۔ جنگل میں شکار اور شکاری خوراک کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں جس سے فوڈ چین بنتی ہے۔ لائٹ پولوشن سے یہ فوڈ چین شدید متاثر ہو رہی ہے اور بہت سے جانوروں کے ناپید ہو جانے کا اندیشہ ہے اورجہاں تک پودوں کا تعلق ہے تو یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ شہری علاقوں میں اسٹریٹ لائٹس کے قریب لگائے گئے یا اگے ہوئے پودوں کی افزائش نسل کے لیے پولینیشن بھی رات کے وقت مصنوعی روشنی کے باعث کم ہوتی ہے اور ان پر پھل بھی کم لگتے ہیں۔رات کے وقت مصنوعی روشنی حشرات کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایک سائنسی مطالعے کے مطابق صرف جرمنی میں ہی ہر موسم گرما میں رات کے وقت مصنوعی روشنی کے نتیجے میں ایسے تقریباً ایک سو بلین چھوٹے چھوٹے حشرات مر جاتے ہیں، جن کا تعلق رات کے وقت فعال رہنے والے حشرات کی قسموں سے ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق لائٹ پولوشن میں دو فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں شہری آبادی بڑھنے کے باعث اگلے چند برسوں میں اس تناسب میں تیزی سے اضافے کا امکان ہے۔یہ روشنیاں جو آج کل کے طرز زندگی کا حصہ ہیں، انہیں جلانے کے لیے توانائی درکار ہوتی ہے، جو زیادہ تر فوسل فیول سے حاصل کی جا رہی ہے۔ فوسل فیولز کا بڑھتا ہوا استعمال دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کی شرح تیز تر کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
پاکستان میں روشنی کی آلودگی سے سب سے زیادہ کراچی شہر متاثر ہو رہا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ایک تکنیکی خرابی کے باعث پاکستان کا ایک بڑا حصہ تاریکی میں ڈوب گیا تھا، جسے درست کرنے میں تقریباً بیس گھنٹے لگ گئے تھے۔ اس واقعے کا سوشل میڈیا پر بہت چرچا رہا کیونکہ کراچی اور لاہور جیسے گنجان آباد علاقوں کے رہائشی روشنیوں کی بہتات کے باعث حقیقی آسمان دیکھ ہی نہیں پاتے۔ بہت سے لوگوں نے پہلی بار جانا کہ لائٹ پولوشن بھی آلودگی کی ایک قسم ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف ہم سے رات کا دلکش آسمان چھن گیا ہے بلکہ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بھی بن رہی ہے۔
Daily Program
