عبدالستار ایدھی
آپ عبدالستار ایدھی صاحب کے نام سے تو ضرور واقف ہوں گے۔ ان کی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف تھی۔ سماجی خدمات کے تعلق سے وہ ساری دنیا میں شہرت رکھتے تھے۔عبدالستار ایدھی بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں 1928 کو پیدا ہوئے۔
ان کے والد مختلف چیزوں کا کاروبار کرتے تھے۔ اسی وجہ سے زیادہ تر گھر سے دور رہتے۔ وہ جب باہر ہوتے تو خشک میووں کی گری،کاجو، پستے وغیرہ کے تھیلے بھر بھر کر گھر بھیجتے۔ ان کی والدہ اپنے اور ان کے حصے کا سار میوہ نادار لوگوں میں تقسیم کر دیتیں۔ جو ان سے زیادہ ضرورت مند ہوتے تھے۔ یہ وہ عادت تھی جوان کی والدہ نے بچپن ہی سے ان کے اندر سمو دی تھی۔ وہ ہر روز سکول جانے سے پہلے انھیں دو پیسے دیتیں، لیکن یہ ہدایت بھی کرتیں کہ وہ ان میں سے ایک پیسا ضرور کسی ضرورت مند کو دیں۔
وہ انھیں یہ بھی سمجھاتیں کہ کسی کو کچھ دینے سے پہلے یقین کر لیا کرو کہ تم سے خیرات لینے والا واقعی حق دار بھی ہے کہ نہیں۔ عبدالستار کی تربیت میں سب سے زیادہ ان کی والدہ کا ہاتھ رہا۔ وہ جیسے ہی اسکول سے واپس گھر آتے تو ان کی والدہ پوچھتیں کہ تم نے پیسوں کا کیا کیا؟ پھر کہتیں کہ ”دیکھو بیٹا! غریبوں کو ستانا اچھی بات نہیں۔
ان کی ہر ممکن مدد کیا کرو۔ اوپر والے کو (اللہ کو) راضی رکھنے کا یہی ایک راستہ ہے۔“ وہ جب ان کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے تو خوش ہوتیں اور دعا دیتیں۔یہ ان کی والدہ جان کی اچھی پرورش ہی تھی جس نے انھیں اپنے آپ پر جبر کرنا سکھایا اور یہ سبق دیا تھا کہ کسی چیز سے محرومی اس لالچ سے بہتر ہے جس کے بیج بونے سے اونچے درخت تو اُگیں، لیکن ان پر پھل نہ لگیں۔
“ اچھی تربیت کے باعث وہ اس قابل ہو گئے کہ حقیقی ضرورت مندوں اور پیشہ ور گداگروں کے درمیان فرق کو جان سکیں۔وہ آس پاس کی غریب بستیوں میں جا کر وہاں کے غریبوں، ناداروں اور ضرورت مندوں کی مشکلات معلوم کرتے اور واپس آکر اپنی والدہ کو حالات سے آگاہ کرتے۔
والدہ انھیں کھانے پینے کی چیزیں اور دوائیں دے کر اُلٹے پاؤں واپس بھیج دیتیں۔ان کی والدہ آس پاس کے گھروں کی پریشانیوں کو کم کرنے کے لیے اپنے آپ کو مصروف رکھتیں۔ ان کے والد کچھ رقم ماہانہ دیتے، جس سے آسانی سے گزربسر ہو جاتی۔
اس کے باوجود ان کی والدہ دکان سے روئی کے بنڈل اُٹھا لانے کو کہتیں۔ جنہیں وہ معاوضے پر صاف کرتے۔ بھوسا اور چھلکا چولھا جلانے کے لیے رکھتے باقی دُھنی ہوئی صاف روئی ایک بڑے بنڈل کی صورت میں پیٹھ پر اُٹھائے وہ بازار کے بیچوں بیچ راستہ دو، راستہ دو کی آوازیں لگاتے ہوئے دکان دار کو واپس دے آتے اور کام کی مزدوری لے کرواپس گھر آ جاتے۔
ان کی والدہ محنت کی عظمت پر پختہ ایمان رکھتی تھی۔ ان کی والدہ رمضان کے مہینے میں دوسری خواتین کے ساتھ مل کر کھانے پینے کی چیزوں کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ تیار کرتیں، جنہیں عبدالستار ایدھی رشتے داروں اور ناداروں کے چھو ٹے چھوٹے گھروں کی کھڑکیوں سے اندر ڈال دیتے۔
ان کی والدہ کہا کرتی تھیں کہ اصل خیرات یہی ہے کہ دائیں ہاتھ کا پتا بائیں ہاتھ کو نہ چلے کہ جس کی امداد کی جا رہی ہے اس کی عزتِ نفس بھی قائم رہے۔ عید کے دن صبح صبح ان کی والدہ غریب لوگوں کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق لفافوں میں پیسے رکھ کر اپنے بیٹے کو دیتیں اور عبدالستار ایدھی تیزی کے ساتھ وہ لفافے ان غریبوں کے گھر میں پہنچا دیتے۔
والدہ کی ہدایت پر گلی کوچوں میں کسی معذوریا اپاہج کی مدد کے لیے تیار رہتے۔ اگر کوئی محتاج مل جاتا تو گھر سے فوراََ ضروری سامان لے کر ضرورت مند کے حوالے کر دیتے۔ ان کی والدہ نے زندگی کے ابتدائی دنوں میں ان کے لیے سماجی خدمت کے کاموں کا جو انتخاب کیا، اسی نے ان کے دل میں انسانی دوستی کی بنیاد رکھ دی تھی۔
جب وہ گیارہ بر س کے ہوئے تو نماز، روزے کے پابند ہو چکے تھے۔ گیارہ سال کی عمر میں وہ کپڑے کی دکان پر ملازم ہو گئے۔ جو ماہانہ معاوضہ ملتا اس میں بچت کرتے۔ انھیں کم عمری سے ہی بچت کی عادت اور فضول خرچی سے نفرت تھی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آگے۔ یہاں ان کی والدہ کافی عرصہ بیمار رہیں عبدالستار ایدھی نے دل وجان سے رات دن ان کی خدمت کی۔ آج عبدالستار ایدھی خدمتِ خلق کا قابلِ فخر نمونہ ہیں۔
اپنے لیے تو سب جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
(آرٹیکل: فرانسس زیوئیر)