اونٹوں کی دوڑ
دنیا کے مختلف خطوں میں کھیل اور مشاغل ہمیشہ سے مقامی ثقافت اور ماحول کے عکاس رہے ہیں۔ جہاں یورپ میں گھوڑوں کی دوڑ اور امریکا میں کار ریس مشہور ہے، وہیں مشرقِ وسطیٰ اور صحرائی خطوں میں اونٹوں کی دوڑ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ کھیل نہ صرف مقامی آبادی کے لیے ایک ذریعہ تفریح ہے بلکہ یہ صدیوں پرانی روایات اور طرزِ زندگی کا بھی عکاس ہے۔
اونٹ کو صحرائی علاقوں میں ”جہازِ صحرا“ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ جانور سخت گرمی، تیز دھوپ اور پانی کی کمی کے باوجود طویل فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عرب دنیا میں صدیوں سے اونٹ زندگی کا لازمی حصہ رہے ہیں۔ یہ نہ صرف سواری اور مال برداری کے لیے استعمال ہوتے تھے بلکہ دودھ، گوشت اور کھال کے ذریعے خوراک اور ضروریات بھی پوری کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب یہ جانور زندگی کا لازمی حصہ بن گئے تو ان سے جڑے مختلف کھیل اور مشغلے بھی وجود میں آئے، جن میں سب سے اہم کھیل اونٹوں کی دوڑ ہے۔
اونٹوں کی دوڑ کی روایت ہزاروں سال پرانی ہے۔ ابتدا میں یہ دوڑ قبائلی تقریبات اور تہواروں میں بطور تفریح منعقد کی جاتی تھی۔ لوگ اپنے مضبوط اور تیز رفتار اونٹ تیار کرتے اور پھر جشن کے موقع پر انہیں میدان میں دوڑاتے۔ یہ دوڑیں صرف کھیل نہیں بلکہ قبائل کے درمیان فخر اور برتری کی علامت بھی سمجھی جاتی تھیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ جب عرب دنیا نے ترقی کی تو یہ کھیل بھی زیادہ منظم ہوتا گیا۔ آج یہ صرف مقامی کھیل نہیں بلکہ ایک باقاعدہ کھیلوں کی صنعت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ خلیجی ممالک جیسے متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب اور عمان میں اونٹوں کی دوڑ کے لیے بڑے پیمانے پر مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں، جنہیں دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ آتے ہیں۔
اونٹوں کی دوڑ میں حصہ لینے والے جانور عام اونٹوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ انہیں خاص طور پر دوڑ کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ان کی خوراک میں توانائی سے بھرپور اجزاء شامل کیے جاتے ہیں تاکہ وہ تیز دوڑ سکیں۔روزانہ ان کی ورزش کروائی جاتی ہے تاکہ وہ لمبے فاصلے تک اپنی رفتار برقرار رکھ سکیں۔دوڑ والے اونٹ عام طور پر دبلی پتلی ساخت کے ہوتے ہیں تاکہ ان کا وزن کم رہے اور وہ زیادہ تیز دوڑ سکیں۔ان اونٹوں کی تربیت بعض اوقات برسوں تک جاری رہتی ہے اور ان کی قیمت لاکھوں ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
اونٹوں کی دوڑ عام طور پر کھلے صحرائی میدان یا خاص طور پر بنائے گئے ٹریک پر منعقد کی جاتی ہے۔ ان ٹریکس کی لمبائی 4 کلومیٹر سے لے کر 10 کلومیٹر تک ہو سکتی ہے۔دوڑ شروع ہونے پر درجنوں اونٹ ایک ساتھ میدان میں دوڑتے ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ گاڑیاں ٹریک کے کنارے دوڑتی ہیں تاکہ مالکان اور کوچ اپنے اونٹوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کر سکیں۔
قبائلی میلوں اور قومی دنوں پر یہ دوڑیں خصوصی طور پر منعقد کی جاتی ہیں۔یہ مقابلے مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔خلیجی ممالک میں اونٹوں کی دوڑ کو اس حد تک اہمیت حاصل ہے کہ حکومتیں اس کے لیے خصوصی ادارے اور ایسوسی ایشنز قائم کر چکی ہیں۔
اونٹوں کی دوڑ آج ایک باقاعدہ صنعت ہے۔ بڑے مقابلوں میں جیتنے والے اونٹوں کے مالکان کو بھاری انعامات ملتے ہیں، جن میں نقد رقم، لگژری گاڑیاں اور سونے کے انعامات شامل ہوتے ہیں۔ بعض اوقات جیتنے والے اونٹ کی قیمت بڑھ کر کئی ملین ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیجی ممالک کے امراء اس کھیل میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں اور اپنے اونٹوں پر بھاری سرمایہ لگاتے ہیں۔
اگرچہ اونٹوں کی دوڑ صدیوں پرانی روایت ہے، لیکن جدید دور میں اس کھیل میں کئی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ سب سے اہم تبدیلی بچوں کے بجائے روبوٹ جاکی کا استعمال ہے۔ ماضی میں چھوٹے بچوں کو اونٹوں پر بٹھا کر دوڑایا جاتا تھا، جو انسانی حقوق کے لحاظ سے ظلم تھا۔ آج کل جدید ٹیکنالوجی نے اس مسئلے کا حل نکال دیا ہے اور روبوٹ جاکی استعمال کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ اونٹوں کی دیکھ بھال کے لیے ویٹرنری ہسپتال، جدید خوراک اور سائنسی تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے تاکہ یہ کھیل محفوظ اور منظم انداز میں جاری رہے۔
اونٹوں کی دوڑ خلیجی ممالک کی سیاحت کا بھی اہم حصہ ہے۔ دبئی، دوحہ اور ریاض میں ہر سال بین الاقوامی اونٹ دوڑ مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں۔ یہ نہ صرف کھیل کا لطف اٹھاتے ہیں بلکہ مقامی ثقافت، موسیقی اور خوراک سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اونٹوں کی دوڑ ایک ایسا کھیل ہے جو صدیوں پرانی روایت سے نکل کر آج ایک جدید اور بین الاقوامی کھیل کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہ کھیل عرب دنیا کی ثقافت، صحرائی زندگی اور محنتی لوگوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اونٹ جو کبھی صرف سفر اور بقا کا ذریعہ تھے، آج بھی اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں لیکن ایک نئے روپ میں۔
اونٹوں کی دوڑ عرب دنیا کی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔ یہ صرف ایک کھیل نہیں بلکہ ایک روایت ہے۔یہ کھیل نہ صرف لوگوں کو تفریح فراہم کرتا ہے بلکہ مقامی معیشت، سیاحت اور ثقافت کو بھی فروغ دیتا ہے۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اونٹوں کی دوڑ صحرا کی دھڑکن اور عرب دنیا کی شان ہے۔
Daily Program
