اسٹیفن ہاکنگ

اسٹیفن ہاکنگ بیسویں اور اکیسویں صدی عیسوی کے معروف ماہر طبیعیات تھے۔ انھیں آئن سٹائن کے بعد گذشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔8 جنوری 1942ء کو آکسفورڈ میں پیدا ہوئے۔انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے طبیعیات کی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں کیمبرج سے فلکیات کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی۔کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے اسٹیفن ہاکنگ کا 1966ء میں لکھا گیا پی ایچ ڈی کا مقالہ جاری کیا گیا جس نے چند ہی دن میں مطالعے کا ریکارڈ توڑ دیا۔ ان کے مقالے کو 20 لاکھ سے زائد مرتبہ پڑھا گیا اور 5 لاکھ سے زائد لوگوں نے اسے ڈاؤن لوڈ کیا۔ہاکنگ نے بہت سی کتابیں لکھیں جبکہ 1988ء میں اْن کی ایک کتا ب ”اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘سے شہرت ملی جس کی ایک کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں۔
انھوں نے ریاضی اور سائنس کے شعبوں میں بہت سارے اعزازات حاصل کیے۔ 2009ء میں انھیں امریکی صدر براک اوباما نے پریزیڈنشل میڈل آف فریڈم سے نوازا۔2014ء میں سینٹ جیمز پیلس میں منعقدہ ایک فلاحی تقریب کے دوران میں انھوں نے ملکہ برطانیہ سے ملاقات بھی کی۔
2014ء میں اْن کی زندگی پر ایک فلم’’دی تھیوری آف ایورتھنگ“بنائی گئی۔ جس میں ایڈی ریڈمین نے مرکزی کردار ادا کیا۔2017ء میں ہانگ کانگ میں کیمبرج میں واقع اپنے دفتر سے ہانگ کانگ میں ایک تقریب سے ہولوگرام ٹیکنالوجی کے ذریعے بات چیت کی۔ ان کے موت کے بعد ان کے بچوں کا کہنا ہے کہ ان کی وراثت بہت سالوں کے لیے زندہ رہے گی۔
ان کے دیگر اعزازات صدارتی تمغہ آزادی (2009)،کاپلی میڈل (2006)،تمغہ البرٹ (1999)،برطانوی کمپینین آف آنر (1989)،وولف انعام برائے طبیعیات (1988)،فرینکلن میڈل (1981)،تمغہ البرٹ آئن سٹائن (1979)،ہیگس میڈل (1976)،رائل سوسائٹی فیلو (1974)شامل ہیں۔
اسٹیفن ہاکنگ کو غیر معمولی ذہانت کی بدولت آج آئن اسٹائن کے ہم پلہ سائنس دان قرار دیا جارہا ہے۔ اس عظیم سائنس دان نے کائنات میں ایک ایسا ”بلیک ہول“ دریافت کیا جس سے روزانہ نئے سیارے جنم لیتے ہیں۔ اس بلیک ہول سے ایسی شعاعیں خارج ہوتی ہیں جو کائنات میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بھی ہیں۔ ان شعاعوں کو اسٹیفن ہاکنگ کے نام کی مناسبت سے ”ہاکنگ ریڈی ایشن“کہا جاتا ہے۔ 1970ء کی دہائی کے شروع میں ہی اس نے اپنے امتیازی مقالوں کے سلسلے کو شائع کروانا شروع کیا۔ 1974ء میں ہاکنگ نے اس بات کو بھی ثابت کر دیا کہ بلیک ہول مکمل طور پر بلیک نہیں ہیں، وہ بتدریج شعاعوں کا اخراج کر رہے ہیں جس کو اب ہاکنگ کی اشعاع کہتے ہیں کیونکہ اشعاع بلیک ہول کے ثقلی میدان سے بھی گذر کر نکل سکتی ہیں۔ اس مقالے نے پہلی دفعہ کوانٹم نظریہ کے عملی اظہار کو نظریہ اضافیت پر برتری حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا اور یہ ابھی تک اس کا سب سے شاندار کام ہے۔1990ء میں ہاکنگ نے جب اپنے کولیگز کے مقالات کا مطالعہ کیا جس میں ٹائم مشین کو بنانے کا ذکر تھا تو وہ فوری طور پر اس بارے میں متشکک ہو گیا۔ اس کے وجدان نے اس کو بتایا کہ وقت میں سفر کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ مستقبل سے آیا ہوا کوئی بھی مسافر موجود نہیں ہے۔ اگر وقت کا سفر کرنا اتنا آسان ہوتا کہ جیسے کسی سیر و تفریح پر جانا تو مستقبل سے آئے ہوئے سیاح اپنے کیمروں کے ساتھ ہمیں تنگ کرنے کے لیے یہاں موجود ہوتے اور ہمارے ساتھ تصاویر کھنچوانے کی درخواست کر رہے ہوتے۔
ہاکنگ نے ایک چیلنج دنیائے طبیعیات کو بھی دیا۔ ایک ایسا قانون ہونا چاہیے جو وقت کے سفر کو ناممکن بنا دے۔ اس نے وقت کے سفر سے روکنے کے لیے قوانین طبیعیات کی طرف سے ایک ”نظریہ تحفظ تقویم“(Chronology Protection Conjecture) پیش کیا ہے تاکہ تاریخ کو مورخوں کی دخل اندازی سے بچایا جا سکے۔ان کی ایک کتاب وقت کی مختصر تاریخ یعنی A brief History of Time ایک شہرہ آفاق کتاب ہے جسے انقلابی حیثیت حاصل ہے۔ یہ آسان الفاظ میں لکھی گئی ایک نہایت اعلیٰ پائے کی کتاب ہے جس سے ایک عام قاری اور اعلیٰ ترین محقق بھی فائدہ اْٹھا سکتا ہے۔
ان کی زندگی کا ایک اور منفرد اور المناک پہلو ایک عجیب بیماری بھی ہے۔ وہ ایم ایس سی تک درمیانے درجے کے طالب علم، سائیکلنگ، فٹ بال اور کشتی رانی کے شوقین تھے۔ روزانہ پانچ کلومیٹر دوڑ معمول تھی۔ 1963ء میں جب وہ کیمبرج یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کر رہے تھے تو ایک دن سیڑھیوں سے پھسل گئے۔ طبی معائنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ پیچیدہ ترین بیماری ”موٹر نیوران ڈزیز“میں مبتلا تھے۔پھر جس بات کا اندیشہ تھا، وہی ہوا۔ اس بیماری کے باعث آہستہ آہستہ ان کے ہاتھ، پیر اور زبان مفلوج ہو گئے۔ لیکن بیماری کے اثر کی شرح اس سے قدرے سست رفتار تھی جتنا ڈاکٹروں کو شروع میں ڈر تھا۔
وہ ایک خطرناک بیماری سے دو چار تھے اور کرسی سے اْٹھ نہیں سکتے تھے۔ ہاتھ پاؤں نہیں ہلا سکتے اور بول نہیں سکتے تھے۔ لیکن وہ دماغی طور پر صحت مند رہے اور بلند حوصلے کی وجہ سے اپنا کام جاری رکھا۔ وہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور اسے صفحے پر منتقل کرنے کے لیے ایک خاص کمپیوٹر کا استعمال کرتے تھے۔ ان کی یہ بیماری ان کو تحقیقی عمل سے روک نہ سکی۔1985ء میں نمونیا کے باعث اسٹیفن ہاکنگ قریب المرگ ہو گئے اور انھیں بچانے کے لیے کی گئی سرجری کی وجہ سے اُن کی آواز مکمل طور پر ختم ہو گئی لیکن اُنھوں نے کمپیوٹر کی مدد سے اپنا یہ پراجیکٹ جاری رکھا۔انھوں نے ویل چیئر کا استعمال کیا اور وہ وائس سنتھیائزر کے بغیر بولنے کے قابل نہیں تھے۔
اس معروف طبیعیات دان نے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں لیکچرز دیے، جیسا کہ اس کی ایک تصویر شائع ہوئی جس میں وہ 2008ء جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں لیکچر دے رہے تھے۔ 22 برس کی عمر میں ان میں ایک مرض موٹر نیورون کی تشخیص ہوئی۔ ان دنوں وہ اپنی پہلی بیوی جین کے ساتھ شادی کی تیاری کر رہے تھے، ڈاکٹروں کا قیاس تھا وہ زیادہ لمبی عمر نہیں جی سکیں گے۔ ان کی شادی 26 سال قائم رہی اور ان کے تین بچے ہوئے۔ہاکنگ نے 1995ء میں اپنی ایک نرس الائن میسن سے بھی شادی کی۔ طلاق سے پہلے وہ 11 برس تک اس بندھن میں بندھے رہے۔اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کے چار سال بعد ہاکنگ نے اْس شخص کی بیوی سے شادی کر لی جس نے اس کے لیے آواز کو پیدا کرنے والا آلہ بنایا تھا۔ بہرحال اپنی اس بیوی کو بھی اس نے 2006ء میں طلاق دینے کے لیے دستاویز کو جمع کروا دیا۔2007ء میں ہاکنگ دونوں بازوں اور ٹانگوں سے مفلوج پہلے شخص بن گئے جنھوں نے بے وزنی کی حالت کا تجربہ کیا جب انھوں نے کشش ثقل کی عدم موجودگی والے خصوصی طور پر تیار کردہ ایک جہاز میں سفر کیا تھا۔ ان کا اس وقت کہنا تھا کہ ”میرے خیال میں نسل انسانی اگر خلا میں نہیں جاتی تو اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے“۔
14 مارچ 2018ء کو اسٹیفن ہاکنگ 76 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔


 

Daily Program

Livesteam thumbnail