ایشیائی دانائی کا امتزاج: عظیم زیارتِ اْمید کی جانب ایک نیا سفر

جیسے ہی ایشیائی کلیسیا پینانگ، ملائشیا میں 20 سے 27 نومبر 2025 تک ہونے والی ”اْمید کی عظیم زیارت“کی طرف بڑھ رہی ہے، ہمیں نہ صرف اپنے مشترکہ ایمان پر غور کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے بلکہ اس زمیں پر بھی جس پر یہ ایمان بویا گیا ہے۔
اِس اجتماع میں ہزاروں کی تعداد میں بشپ صاحبان، کاہنانہ برادری، مذہبی رہنما، ڈیکن اور منتخب روحانی پیشوا شریک ہوں گے۔ ان سب کو ایک گہرا، بنیادی سوال اُس جگہ اکٹھا کر رہا ہے:
ہم ایشیائی کیتھولک اپنی پہچان کو کیسے جیتے ہوئے اس طرح ظاہر کریں کہ وہ ہمارے براعظم کی ثقافتی دولت، روایات اور گہرے روحانی ورثے سے ہم آہنگ ہو؟
اس کا جواب کسی بیرونی حکمتِ عملی میں نہیں چھپا، بلکہ اسی بات میں ہے کہ ایشیائی کلیسیا کی اصل پہچان ”مکالمہ“ میں جڑی ہوئی ہے۔
ایشیا: ایک کثیرالاعتقادی نعمت
ایشیا وہ براعظم ہے جہاں انسانیت کی عظیم روحانی روایات نے جنم لیا،بدھ مت، ہندو مت، اسلام اور بے شمار دیسی تہذیبیں۔مغرب کی نظر میں یہ تنوع شاید ایک چیلنج دکھائی دے گویا بکھرا ہوا منظر جسے”بدلا“جانا چاہئے۔لیکن ہمارے لیے، ایشیا کی کیتھولک برادری کے لیے، یہ تنوع سب سے پہلے اکیسویں صدی کا تحفہ ہے۔
یہ حقیقت ہمیں اُس قسم کے مشن کی طرف بلاتی ہے جو یہ تسلیم کرے کہ خدا کی سچائی اور فضل ہمارے ثقافتی ورثوں میں پہلے ہی بویا جا چکا ہے۔ایشیا میں مسیحی ہونے کا مطلب ہے مسلسل ملاقات کی زندگی جینا،ایسی گواہی دینا جو زور و غلبے سے نہیں،بلکہ نرم، خاموش اور انسانیت بھری موجودگی سے سامنے آتی ہے۔ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ثقافتی ڈھانچوں کو توڑنے کے لیے نہیں بھیجا گیابلکہ اُن کے امن، اتحاد اور ہم آہنگی کے خوابوں میں مسیح کی نجات دینے والی اْمید شامل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
الہٰی بنیاد: زندگی کا مکالمہ
ہمارا یہ مکالماتی تشخص خود انجیل کے مرکز میں ہے ”تجسّد کا راز“۔خدا نے انسان سے فاصلے پر رہ کر بات نہیں کی؛ وہ انسانی زندگی میں اُتر آیا۔ایشیا میں کلیسیا کا سب سے مؤثر طریقہ اکثر مکالمہ زندگی ہے۔وہ خاموش گواہی جو ہم روزمرہ کی زندگی میں دیتے ہیں،اپنے غیر مسیحی بھائیوں کے ساتھ رہتے، کام کرتے، رنج و خوشی بانٹتے ہوئے۔یہ مکالمہ بحث ومباحثہ نہیں بلکہ ساتھ چلنے کا نام ہے۔
مثالیں روزمرہ میں صاف نظر آتی ہیں:
مشترکہ سماجی خدمت:
 سیلاب کے بعد امداد، ماحول کے تحفظ، یا مقامی ضرورت مندوں کے لیے مل کر کام کرنا،یہاں مسیح کی محبت کام کے ذریعے نظر آتی ہے، نہ کہ الفاظ سے۔
بین المذاہب دوستی:
  خاندانوں میں ایسی گہری، باوقار دوستی جو ایک دوسرے کی خوشیوں میں شامل ہو، ایک دوسرے کے غموں میں شریک ہو۔یہ دوستی ہمیں بتاتی ہے کہ انسان ہونا سب سے بڑی مشترک قدر ہے۔
تبلیغ پر نہیں، موجودگی پر زور:
  ایک سادہ مگر دیانت دار، عبادت گزار اور فیاض زندگی یہی سب سے مؤثر گواہی ہے۔
ایشیا کی دانائی: انجیل کی طرف راستے
ایشیا کے ثقافتی ورثے میں ایسے اصول اور اخلاقیات موجود ہیں جو قدرتی طور پر انجیل سے ہم آہنگ ہیں۔اگر ہم حقیقی معنوں میں ایشیائی اور کیتھولک ہونا چاہتے ہیں، تو ہمیں ان روایات سے سیکھنا ہوگا:
فلپائینی پاکیکیپاکپوا:
  یعنی دوسرے میں خود کو دیکھنامشترکہ انسانیت۔
یہ مسیحی تعلیم سے ملتا ہے: اپنے پڑوسی سے بے شرط محبت۔
انڈونیشیائی گوتونگ روؤونگ:
  برادری کی مشترکہ محنت، بوجھ بانٹنا۔
  یہ اصول کلیسیا کی سماجی تعلیمات کی ایک حسین تصویر ہے۔
جاپانی وا:
  ہم آہنگی، سکون، اور ٹکراؤ سے بچنا۔یہ ہمیں یاد دلائے کہ اختلافات کو احترام، مکالمے اور مصالحت سے سنبھالنا ہے۔
بھارتی ستیہ گرہ:
  سچائی اور عدم تشدد
یہی روح انجیل کی تعلیم میں ملتی ہے:
  برائی کو بھلائی سے جیتنا، امن سے جدوجہد کرنا۔
ان خوبیوں کو اپنا کر ہم دکھاتے ہیں کہ مسیح کا پیغام کسی ایک تہذیب تک محدود نہیں بلکہ ہر ثقافت کی گہرائی میں پہلے سے موجود ہے اور کلیسیا اسے نکھار کر مکمل کرتی ہے۔
اُمید میں ساتھ چلنے کی دعوت
پینانگ میں ہونے والی ”اْمید کی عظیم زیارت“ ہمیں ایک بار پھر اسی عزم کی طرف بلاتی ہے کہ ایشیا کی کلیسیا کا مستقبل اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ہمارے خطے کے مسائل غربت، سیاسی بے یقینی، ماحولیاتی بحران، مذہبی عدم برداشت یہ سب کچھ تنہا حل نہیں ہو سکتا۔
اس کے لیے ہمیں اُمید میں ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔ہر مذہبی اور ثقافتی حد سے آگے بڑھ کر۔
یہی ایشیا کی کلیسیا کا طریقہ ہے:
عاجز، ہمدرد اور موجود۔خدمت کے لیے اپنا دل اور وسائل کھول دینے والی۔جیسے ہم اس اجتماع کی تیاری کرتے ہیں،آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہم ایسے مبلغِ مسیح ہوں جو اپنی موجودگی، شفقت اور محبت کے ذریعے گواہی دیتے ہیں۔وہ محبت جو خدا نے تمام انسانوں کے لیے رکھی ہے۔
ایشیا میں کیتھولک ایمان تب سب سے زیادہ روشن ہوتا ہے جب وہ اپنے اِردگرد کی خوبصورت تنوع کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چمکتا ہے۔