گیا وقت یا د تو آئے گا لیکن ہاتھ نہیں آئے گا
انسان کی زندگی تین مراحل پر مشتمل ہوتی ہے بچپن، جوانی اور بڑھاپابچپن چونکہ انسان کا بولنے،چلنے،کھانے پینے،کھیلنے،کودنے، سیکھنے میں گزر جاتا ہے۔ زندگی کا سب سے اہم و انمول مرحلہ جوانی ہے اس میں جسم و دماغ بھرپور طاقت ور وتوانا ہوتا ہے امنگیں جوان اور جذبے انتہائی پرجوش ہوتے ہیں۔ جبکہ آخری مرحلہ بڑھاپا انسان کا لڑکھڑاتے،ہانپتے کانپتے، بیماریوں اور بے بسیوں،لاچارگیوں میں گزرتا ہے۔
زندگی کے دوسرے مرحلے یعنی جوانی کی خوب قدر کرنی چاہیے اور اپنی طاقتوں و قوتوں کو اچھے اور بھلائی کے کاموں میں صرف کرنا چاہیے ورنہ اس دور میں کی جانے والی بے فکری،لاپرواہی بڑھاپے میں پچھتاوے کا سبب بن جاتی ہے کیوں کہ گیا وقت کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ اس کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی طرح ہے، جس سے اگر فائدہ اٹھا یا جائے تو بہتر ورنہ وہ پگھل جاتی ہے۔جونوجوان وقت کی قدر کر نا جانتے ہیں وہ صحراؤں کو گلشن بنا دیتے اور عناصر کو مسخر کر سکتے ہیں لیکن جونوجوان وقت کو ضائع کرتے ہیں، وقت انھیں ضائع کر دیتا ہے۔آج اگر محنت ومشقت سے جی چراکر فضولیات میں وقت گنوا بیٹھے، تو کل پچھتاوا ہوگا، لیکن اس وقت کا پچھتاوا اور افسوس کسی کام نہ آئے گا۔اس کی ایسی ہی مثال ایک کہانی سے ذریعے سمجھتے ہیں۔واقع کچھ اس طرح ہے کہ ایک بابا جی کہیں سے گزر رہے تھے، بڑھاپے کی وجہ سے کمر اس قدر جھکی ہوئی تھی کہ چلتے ہوئے یوں لگتا کہ وہ زمین پر کچھ تلاش کررہے ہیں۔ پاس کھڑے ایک نوجوان کو مذاق سوجھا اور کہنے لگا:”بڑے میاں! کیا تلاش کررہے ہو؟“
بات اگرچہ غصہ دلانے والی تھی، مگر اس بوڑھے نے صبر وبرداشت اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور طنز کے اس زہریلے سوال کے جواب میں نہایت ہی فکر انگیز بات کی کہ ”بیٹا! میں اپنی جوانی تلاش کررہا ہوں۔“
اب حیران کن جواب سن کر وہ نوجوان چونکا اور کہنے لگا:”باباجی! مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی، کیاگزری جوانی بھی کبھی ڈھونڈی جاسکتی ہے؟ کیا یہ ایک دفعہ جانے کے بعد دوبارہ پھر کبھی کسی کو ملی ہے؟“بوڑھے شخص نے کہابیٹا!یہی تو افسوس ہے کہ جب جوانی کی نعمت میرے پاس تھی اس وقت اس کی قدر نہ کرسکا اور آج جب میں اس سے ہاتھ دھو بیٹھا ہوں، تب اس کی اہمیت کا احساس ہورہا ہے۔ کاش! مجھے جوانی کا زمانہ ایک بار پھر مل جائے تو ماضی میں ہونے والی تمام غلطیوں اور کوتاہیوں کی تلافی کرلوں۔پھر ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہافسوس صد افسوس! میں اپنی جوانی کی دولت لٹا بیٹھا،لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔میں نے اپنی جوانی کی ناقدری کی اور غفلت میں گزاردی۔پھر اس ضعیف نے نوجوان سے کہا،”بیٹا تم ابھی جوان ہو،اس جوانی اور صحت سے فائدہ اٹھالو، کمر جھکنے سے پہلے کچھ اچھا کرلو ورنہ بڑھاپے میں میری طرح کمر جھکائے جوانی تلاش کرتے پھروگے۔ اُس وقت حسرت وندامت کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ افسوس کرتے رہوگے، لیکن ہاتھ کچھ نہ آئے گا اور حالات کا کچھ اس طرح سے سامنا کرنا پڑیگا کہ بچپن کھیل میں کھویا، جوانی نیند بھر سویا، بڑھاپا دیکھ کررویا۔ بوڑھے بابا جی کے اس انداز گفتگونے نوجوان کے دل ودماغ کو بے حد متاثر کیا۔ تھوڑی دیر پہلے اس بوڑھے پر طنز کے تیر چلانے والا نوجوان، بوڑھے کی باتوں سے متاثر ہو کر کہنے لگاکہ میں جوانی کی قدر کروں گا۔واپس جاتے ہوئے سوچ ر ہا تھا کہ واقعی
وقت کی ناقدری بالآخر ندامت کا سبب بن جاتی ہے جیسے یہ بوڑھا جو اپنی جوانی کا سفر فضولیات میں گزار کر جب بڑھاپے میں نیکیوں،اچھائیوں کی طرف آیا، تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس وقت انسان کچھ کرنا چاہے بھی تو جسم واعضا کی کمزوری اور صحت کی خرابی حوصلے پست کردیتی ہے۔
لہٰذا اے قوم کے نوجوانو!جب تک جوانی کی نعمت ہے اس کو غنیمت جانتے ہوئے رائیگاں نہ جانے دیں زیادہ سے زیادہ محنت اور اچھے کاموں کی عادت اپنانے کی کوشش کرلو۔ اگر آج محنت ومشقت سے جی چراکر فضولیات اور برائیوں میں وقت گزار کر ہمت وحوصلہ گنوا بیٹھے، تو کل پچھتاوا ہوگا، لیکن اس وقت کے پچھتانے اور افسوس کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔وقت کی لگام کب کسی کے ہاتھ آئی ہے اور وقت کی اس گاڑی کو آج تک کس نے کہا کہ ذرا آہستہ چل!
پس آج وقت کی قدر کیجیے اور اس سے فائدہ اٹھائیے، وگرنہ پھر گیا وقت یاد تو بہت آئے گا مگر ہاتھ نہ آئے گا۔