ویلنٹائن ڈے اور ہم
ویلنٹائن ڈے ایک ایسا دن ہے جو انسانوں کی محبت کو محدود نہیں کرتا بلکہ لامحدود بنا دیتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے کا تاریخی پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ اس دن کو باقاعدہ منانے کا آغاز 14 فروری 496 کو ہوا۔تیسری صدی میں روم کے شہنشاہ کلاڈیس کی حکومت تھی۔ملک میں حالات ناساز گار ہونے کی وجہ سے شہنشاہ نے حکم دیا کہ صرف اور صرف غیر شادی شدہ مردوں کو ہی فوج میں بھرتی کیا جائے۔ کیونکہ وہ زیادہ بہادر اور بہترین سپاہی ثابت ہوتے ہیں۔ اِسی بنا پر اس نے سپاہیوں پر شادی نہ کرنے کی سختی سے پابندی عائد کر دی اور حکم عدولی کرنے والے کسی بھی شخص کے لئے سزائے موت تجویز کردی اور پابندیوں کے باوجود بھی ویلنٹائن جو کہ ایک نوجوان راہب تھے انہوں نے اس شہنشاہ کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور نوجوان جوڑوں کو ملانے کا سلسلہ جاری رکھا۔جب شہنشاہ کو اس بات کی خبر ملی کہ ویلنٹائن نے نوجوان جوڑوں کو ملانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تو ویلنٹائن کو گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلایا اور 270میں سینٹ ویلنٹائن کو پھانسی دے دی گئی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ویلنٹائن کو قید کے دوران جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی اور وہ ایک دوسرے کو خط و کتابت کرنے لگے۔جیلرکی بیٹی اپنے خط میں اسے "یو آر مائی ویلنٹائن '' لکھ کر مخاطب کرتی تھی۔ سینٹ ویلنٹائن کی اس قربانی کے عوض اسے محبت کا دیوتا بھی کہا جاتا ہے۔ تیسری صدی میں شروع ہونے وا لے ویلنٹائن ڈے نے، آج ہر انسان خصوصا ہر محبت کرنے والے کے دل میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ویلنٹائن جوان دلوں پر حکومت کر رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے یہ دن پاکستان میں بھی بہت جوش و خروش سے منایا جانے لگا ہے۔ویلنٹائن ڈے کو محبت کا دن بھی کہا جاتا ہے یہ دن ہر سال 14 فروری کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا دن ہے جس دن ہم اپنے پیاروں سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔بے شک محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو نہ تو کبھی ختم ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کمی آ سکتی ہے۔ ویلنٹائن ڈے بھی اسی جذبہِ محبت کی یاد میں منایا جانے والا دن ہے۔ یہ وہی جذبہ ہے جو نفرتوں کی سنگلاخ چٹانوں کو توڑ کر محبت کے پھول کھلا سکتا ہے۔ نفرتوں کی دیواروں کو گرِا کر چاہتوں کے تاج محل تعمیر کر سکتا ہے۔محبت تو کائنات کا وہ حسین ترین احساس ہے جس کے بغیر تمام جذبے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ محبت کا جذبہ کسی خاص علاقہ،ذات،رنگ اور نسل کے لوگوں تک محدود نہیں۔ آج تک اس پر اتنا کچھ لکھا گیا اور اس کے بارے میں اتنا کچھ کہا گیا کہ صفحوں کے صفحے سیاہ ہوگئے مگر پھر بھی یہ ختم ہونے میں نہیں آتی۔اسی جذبے کی وجہ سے ہیر رانجھا اور سسی پنوں جیسی محبت بھری داستانوں نے جنم لیا اور پھر بھی اس جذبہ کے رنگ میں ذرا بھی کمی نہیں آئی۔آج سے دس بارہ برس قبل تو ہمیں صرف اور صرف فادرز ڈے،مدرز ڈے، ویمن ڈے اور ہیومن رائٹس ڈے وغیرہ کے بارے میں ہی پتہ تھا۔ویلنٹائن ڈے آتا اور چپکے سے ہی گزر جایا کرتا تھا۔ کسی کو بھی اس کے بارے میں کوئی خیال نہیں تھا کہ یہ دن اس طرح سے منایا جانے لگے گا اور واقعی جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں، ہمیں کسی سے پیار ہو جاتا ہے، جب کوئی انسان ہمارے لیے خاص ہو جاتا ہے تو پھر ہر دن ہی ویلنٹائن ڈے ہوتا ہے۔ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس کی گواہی ہر چیز دیتی ہے بلکہ یہ کائنات بھی خدا کی انسان کے ساتھ محبت کی نشانی ہے۔خدا نے انسان کو تخلیق کر کے زمین پر بھی اس لیے بھیجا کہ وہ خالق اور مخلوق سے محبت کا مظاہرہ کرسکیں۔معروف شاعرہ کہکشاں بھٹی نے کہا:کہ محبت رِم جھمَِ پھوار کی طرح ہوتی ہے۔
فیض احمد فیض کہتے ہیں: مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔۔۔
اگر ہم یورپ پر نظر دوڑائیں تو ایک طرف جو لیس سیزر کی محبت کے ا فسانے ادب کا حصہ بنتے ہیں تو دوسری طرف رومیو جولیٹ کی محبت بھی پروان چڑھتی نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ شہنشاہ انگلستان ایڈورڈ ہشتم کی محبت کے افسانے بھی ملتے ہیں جس نے محبت کی خاطر تخت و تاج کو ٹھوکر مار دی تھی۔ویلنٹائن ڈے دنیا بھر میں محبت کے پجاریوں اور نوجوان دلوں کی ترجمانی کرنے والا دن ہے۔جب روٹھے ہوئے دل باہمی اختلافات اور رنجشیں بھلا کر ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جو سال بھر کی قدورتیں اور نفرتیں محض ایک پھول سے مٹا دیتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے ہر انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنی محبت کو نہ صرف اپنے چاہنے والوں پر نچھاور کریں بلکہ ان سب کو گلاب پیش کریں جنہیں کوئی بھی پیار نہیں کرتا۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
محبت ایسا پودا ہے، جو تب بھی سبز رہتا ہے
کہ جب موسم نہیں ہوتا،محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے، تو پانی کم نہیں ہوتا
معروف شاعر اور صحافی شیخ اپنی نظم ویلنٹائن ڈے میں لکھتے ہیں:
ضروری تو یہی تھا کہ میں اس دن کی روایت کے حوالے سے تمہیں کچھ پھول دیتا، مگر میں کیا کروں جانا ں جہاں میں ہوں وہاں اب پھول تو کیا گھاس بھی اْگتی نہیں ہے۔دوکانوں پر سجی ان کاغذی خوش رنگ بدبودار پھولوں سے تو بہتر تھا کہ یہ ایک فقرہ جو گرچہ پہلے بھی تم سے کہہ چکا ہوں پھر بھی تازہ اور خوشبو دا ہے اب تک "مجھے تم سے محبت ہے"
ویلنٹائن ڈے پر کارڈ,چاکلیٹ اور پھولوں و غیرہ تحفہ کے طور پر ایک دوسرے کو دیے جاتے ہیں۔لیکن گلاب کا پھول اس دن کا خاص تحفہ ہے۔ جسے ایک شخص اپنی محبت کے اظہار کے طور پر دوسرے کو دیتا ہے۔مختلف ممالک میں عام طور پر لڑکی اور لڑکا ایک دوسرے سے اظہارِ محبت کے لئے یہ دن مناتے ہیں لیکن پاکستان اور ہندوستان میں یہ پھول ہم اپنی ماں، بہن، بیٹی،استادیا کسی اور کو بھی جسے آپ زندگی میں اہم سمجھتے ہیں۔جسے زندگی میں اہمیت دیتے ہیں اسے دے سکتے ہیں۔ کیونکہ محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے جس کا اظہار کوئی غلط بات نہیں۔بہر حال آج دْنیا بھر میں 14فروری کو ویلنٹا ئن ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔پاکستان میں اس دن کو منانے کے حوالے سے کافی بحث بھی پائی جاتی ہے کی آیا اس دن کو منانا چاہیے یا نہیں؟لیکن محبت تو ایسا جذبہ ہے جو چْھپائے نہیں چْھپتا۔ اور محبت کرنا،پیار کا اظہار کرناتو کوئی بْری بات نہیں بلکہ یہ تو ایسا جذبہ ہے جس میں ہم ایک دوسرے کے دْکھ سْکھ میں شامل ہوتے ہیں۔ویلنٹائن ڈے انہی روایات کو آگے بڑھاتا ہے۔اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی حدود میں رہتے ہوئے اس دن کو منائیں تاکہ محبت جیسے لافانی پاکیزہ جذبے کو فرو غ ملے اور اس کے ذریعے سے رشتوں کے درمیان جمی ہوئی نفرت کی برف کو پگھلا کر محبتوں کے پھول کھلائے جا سکیں۔